ملی ہمدردی کا دم بھرنے والا ہر کوئی ہمدرد نہیں ، رائے دہی کے لیے مسلمانوں کو ہوشمندی سے کام کرنے کی ضرورت
حیدرآباد ۔ 23 ۔ اپریل : ایک ایسے وقت جب کہ انتخابی مہم کے اختتام کے لیے بڑی مشکل سے ایک ہفتہ باقی رہ گیا ہے ۔ تمام سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے ۔ کانگریس ، ٹی آر ایس ، وائی ایس آر کانگریس ، تلگو دیشم ہر کوئی مسلم ووٹروں پر نظریں جمائے ہوئے ہیں ۔ انہیں اچھی طرح اندازہ ہے کہ تلنگانہ میں اگر اقلیتوں اور آندھرا اور رائلسیما سے آکر بس جانے والوں کے ووٹوں کو ملایا جائے تو وہ انقلاب برپا کرسکتے ہیں ۔ ان حالات میں مسلمان لوک سبھا کی 17 میں سے کم از کم 12 اور 119 اسمبلی حلقوں میں کم از کم 80 حلقوں میں بادشاہ گر کا کردار ادا کرسکتے ہیں ۔ لیکن فرقہ پرستوں کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے مسلمانوں کو انتہائی دانشمندی اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے ووٹوں کا استعمال کرناچاہئے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ فی الوقت ہر سیاسی جماعت کاسہ گدائی لیے مسلمانوں کے پاس پہنچ رہی ہے ۔ خود بی جے پی کو بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ مرکز میں مودی اور ریاست میں بی جے پی اور اس کے اتحاد کو اقتدار سے روکنے میں مسلمان ہی اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف نے مشیر آباد کے ایک ممتاز مسلم تاجر سے بات کی ان کے خیال میں موجودہ انتخابات میں اگر مسلمان دانشمندی کے ساتھ اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرتے ہیں تو بی جے پی کو پارلیمانی اور ریاستی انتخابات دونوں میں نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس کے لیے مسلمانوں کا بڑی برائی اور چھوٹی برائی میں امتیاز کرنا ضروری ہے ۔ کیوں کہ کانگریس ہو یا ٹی آر ایس کوئی بھی سیاسی جماعت مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہے بلکہ انہیں ایک سیاسی کھلونے کی طرح استعمال کرتی ہیں ۔ شہر کے ایک سینئیر ڈاکٹر سے بات کرنے پر انہوں نے کہا کہ ملک کے ماحول میں بڑی شدت کے ساتھ فرقہ پرستی کا زہر گھولا جارہا ہے ۔
لیکن ہندوستان اور ہندوستانیوں کی خوش قسمتی ہے کہ فرقہ پرستی کا زہر پھیلانے والوں سے کہیں زیادہ تعداد انسانیت نواز لوگوں کی ہے ۔ اس کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان میں فرقہ پرستوں کو استحکام حاصل ہورہا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ پیشہ طب سے وابستہ کئی اہم شخصیتیں بھی بی جے پی اور مودی کی طرف بھاگ رہی ہیں ایسے میں مسلم رائے دہندے اپنے اپنے حلقوں کی سطح پر ایک خصوصی حکمت عملی طئے کرتے ہوئے ایسے امیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کریں جو سیکولر جذبہ رکھتے ہوں شہر کے ایک بلڈر نے اس سوال کا جواب یوں دیا ’ ملک یا ریاست کی کوئی سیاسی جماعت اور اس کے قائدین کو مسلمانوں سے کوئی ہمدردی نہیں ان کے مسائل سے کچھ لینا دینا نہیں ۔ ان کی ترقی و خوشحالی کے لیے اقدامات کرنے کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ انہیں تو بس اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں ۔
مسلمان احتجاج بھی کرتے ہیں تو مسلم احتجاجی مظاہرین میں انہیں دہشت گرد نظر آتے ہیں ‘ ۔ ان صاحب کے تیور دیکھتے ہوئے ہم نے کانگریس کے بارے میں ان سے سوال کردیا جس پر انہوں نے کہا کہ ’ گجرات فسادات کے بعد 2004 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا اور گذشتہ دس برسوں سے مرکز میں کانگریس برسر اقتدار ہے اگر وہ چاہتی تو گجرات فسادات کے ضمن میں نریندر مودی کو جیل بھجوا سکتی تھی اس سلسلہ میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمان شہید احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کا کیس زبردست بنیاد فراہم کرسکتا تھا ۔ لیکن کانگریس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر صرف مگرمچھ کے آنسو بہائے اگر اس میں عزم و حوصلہ ہوتا تو آج نریندر مودی عہدہ چیف منسٹری پر بھی فائز نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی جیلوں اور عدالتوں کے چکر کاٹتے گذر جاتی ۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ مودی نے گجرات فسادات میں کیا رول ادا کیا ہے ۔ عشرت جہاں اور دیگر بے قصور نوجوانوں کے فرضی انکاونٹرس کس کے اشارے پر کئے گئے اس کے باوجود کانگریس حکومت نے بزدلی کا مظاہرہ کیا ۔ ورنہ مسلمانوں کا مجرم جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتا ۔ تلنگانہ تحریک کی تائید کرنے والے ایک بزرگ شہری سے جب ہم نے انتخابات میں مسلمانوں کی حکمت عملی کے بارے میں سوال کیا تو کہنے لگے کہ آج کانگریس ، بی جے پی ، ٹی آر ایس ، علحدہ تلنگانہ کا سہرا خود کے سر باندھ رہے ہیں جب کہ اس علحدہ ریاست کا کریڈٹ ان چار سو سے زائد نوجوانوں کو جاتا ہے جنہوں نے تلنگانہ کے لیے اپنی جانیں قربان کردی ہیں ۔
ٹی آر ایس کے بارے میں ان صاحب کا کہناتھا کہ یہ پارٹی ناقابل بھروسہ ہے اس لیے کہ ماضی میں بھی اس نے بی جے پی سے اتحاد کیا تھا اس کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مابعد انتخابات وہ کیا کرنے والی ہے ۔ انہوں نے ایک میڈیا رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ اب ہر جماعت مسلمانوں کے ووٹوں کی محتاج ہے تلنگانہ کے 119 میں سے کم از کم 50-60 اسمبلی میں مسلمان جس کی تائید کریں گے وہی کامیاب ہوگا ۔ اسی طرح 8-10 حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار ہی کامیاب ہوسکے گا ۔ ادویات کے کاروبار سے جڑے ایک نوجوان کے خیال میں مسلمانوں کو بڑی سوچ سمجھ کے بعد امیدوار کے انتخاب کا فیصلہ کرنا ہوگا کیوں کہ خود کو ملت کا ہمدرد ظاہر کرنے والا ہر لیڈر حقیقی ہمدرد نہیں ہوتا بلکہ اس کے ماضی کے ریکارڈ کو بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کو موقع اور محل کی مناسبت سے فیصلہ کرتے ہوئے سیکولر جماعتوں یا امیدواروں کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کرنا چاہئے ۔۔