ہندوستانی جمہوریت ہو یا دُنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں اہم کوئی سیاسی پارٹی اور گروپ ، ایک خاندان کی قیادت، اقرباء پروری کی سیاست کو ترجیح دیتا ہے تو اس میں نقص نکالنے کی اجازت بھی اس جمہوریت کے طفیل کا حصہ ہے۔ ہندوستان میں ماں ۔ بیٹے کی سیاست کے خلاف مہم چلانے والی بی جے پی اور اس کے لیڈر نریندر مودی نے عوام کا ذہن تبدیل کرایا تو وہیں تلنگانہ کے حصول کے لئے تحریک چلاکر ایک خاندان کے ارکان نے حصول تلنگانہ کا ثمر حاصل کرنے کے لئے اقتدار میں برابر کا حصہ حاصل کرلیا۔ ہندوستانی جمہوریت کے خدوخال ہوں یا عالمی سطح پر جمہوریت پر عمل کرنے والے ملکوں خاص کر امریکہ میں بھی خاندانی سیاسی وراثت کا چلن عام ہوچکا ہے۔ جمہوری اُصولوں کے ثمرات صرف ایک خاندان کو حاصل ہوتے ہیں تو اس کی خرابیوں کا خمیازہ عوام کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، دیگر جمہوری ملکوں کے رائے دہندوں کی سوچ مختلف ہوتی ہے جبکہ ہندوستانی رائے دہندوں کے فکر و عمل کا معاملہ زیادہ جذبات سے منسلک ہوتا ہے۔ تلنگانہ میں بھی علاقائی جذبات نے کام کیا ہے، مرکز کی بی جے پی حکومت نے ماں ۔ بیٹے کی حکمرانی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کی تو تلنگانہ میں باپ، بیٹے، بیٹی، بھتیجے اور دیگر رشتہ داروں کو اقتدار تک پہنچانے میں رائے دہندوں نے اہم رول ادا کیا، اب مرکز اور ریاست کا تبدیل شدہ سیاسی ماحول عوام کے لئے وہ ثمرات پیدا نہیں کرے گا جس کی انہوں نے تمنا کی تھی۔ مرکز میں کانگریس کو بدترین شکست کے بعد پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا رول ادا کرنے میں بھی وہ پیچھے ہوگئی ہے۔ راہول گاندھی کو پارٹی کا قائد مقننہ بنانے کی کوشش ناکام رہی۔ راہول گاندھی ایوان کے اندر پارٹی کی قیادت کرنے کے لئے تیار نہ تھے، ان کی جگہ مجبوری میں پارٹی نے اپنے سینئر اور وفادار لیڈر کرناٹک کے ملکارجن کھرگے کو قائد ایوان بنایا۔ کانگریس قائدین نے پارٹی کی قیادت کی ذمہ داری کسی اور لیڈر کے حوالے کرنے کی ہمت نہیں کی جس کے نتیجہ میں ماں۔ بیٹا اس پارٹی کی تنظیمی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ اگر پارٹی قیادت کو جمہوری عمل میں دلچسپی ہوتی تو پارٹی کی باگ ڈور دیگر قائدین کے سپرد کرنے میں کوئی پس و پیش محسوس نہیں کرتی۔ لوک سبھا انتخابات میں شکست کے بعد اگرچیکہ کانگریس صدر کی حیثیت سے سبکدوش ہونے سونیا گاندھی نے اشارہ بھی دیا تھا مگر پارٹی کے وفادار قائدین نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کا مطلب یہی ہوا کہ قومی سطح پر جو قائدین جمہوری اُصولوں کی دُہائی دیتے ہیں، وہ پارٹی اُمور کے معاملوں میں خاندانی حکمرانی کو عزیز رکھتے ہیں۔ اس خاندان نے جب 71 سالہ ملکارجن کھرگے کو لوک سبھا میںپارٹی کی قیادت کی ذمہ داری سونپی تو سیاسی حلقوں میں کئی سوال اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ماں۔ بیٹے کو پارٹی کی بقاء کیلئے کچھ ٹھوس اقدام کرنے ہوں تو پارٹی قیادت کی ذمہ داری کسی دوسرے سینئر لیڈر کے حوالے کرنی چاہئے یا نہیں؟ جس قیادت نے پارٹی کو لوک سبھا انتخابات میں سادہ اکثریت کے مطابق دستورِ ہند کی رو سے ایوان میں ارکان کی جملہ تعداد کا 10 فیصد یعنی 54 ارکان بھی منتخب کرانے میںناکام ہوئی ہے تو اسے ایک قومی پارٹی کے لئے سب سے شرمناک شکست قرار دیا جارہا ہے، ایوان لوک سبھا میں اگر راہول گاندھی اپنی ذمہ داری سنبھالنے سے گریز کرچکے ہیں تو وہ پارٹی کی تنظیمی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں کس حد تک کامیاب ہوسکیں گے، یہ غور طلب امر ہے۔ سونیا گاندھی کے تعلق سے یہی تاثر قائم ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں بظاہر نظر آتی ہیں لیکن انہیں اکثر ایوان میں خاموش ہی دیکھا گیا ہے۔ پارلیمنٹ میں موجودگی کے باوجود انہوں نے موثر سیاسی تجربات کا مظاہرہ نہیں کیا خاص کر حالیہ علالت کے بعد وہ بتدریج عوامی زندگی سے دُور ہی ہوتی رہیں۔ ان کے ناقدین نے گزشتہ 10 سال کے دوران ان کی سیاسی کارکردگی پر بھی شدید نکتہ چینی کی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں 10 سال تک سرکاری بینچوں پر بیٹھنے کے باوجود انہوں نے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے صرف دو یا تین تقاریر ہی کی ہیں، اس لئے ان کے خلاف بی جے پی نے طاقتور مورچہ تیار کرکے نریندر مودی کو اس مورچہ کا سربراہ مقرر کیا اور نتائج پارٹی کے حق میں ہوگئے۔ کانگریس نے ساری انتخابی مہم نوجوان قیادت کو موقع دینے کے نعرے کے ساتھ چلائی جبکہ عوام نے اس نظریہ کو مسترد کردیا۔ نوجوان قیادت کے مقابلہ بڑی عمر کے لیڈر کو ووٹ دینے میں ترجیحی فیصلہ کیا ہے۔ اب کم از کم کانگریس کو یہ خیال ہونا چاہئے کہ جس طرح اس نے لوک سبھا میں پارٹی کی نمائندگی کی ذمہ داری اپنے سینئر لیڈر کے سپرد کردی ہے تو پارٹی کی قومی سطح پر قیادت کرنے کے لئے سینئر وفادار قائدین کو آزمایا جاسکتا ہے، لیکن نہرو گاندھی خاندان اس طرح کا سیاسی فیصلہ کرنے میں مصلحت سے زیادہ مفادات سے کام لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راہول گاندھی ہندوستانی رائے دہندوں سے دُور ہورہے ہیں۔ اگر انہیں عوام کا عزیز لیڈر بنانا ہے تو خوداحتسابی کے عمل کے ساتھ نہرو گاندھی خاندان کے سیاسی سبق کو اچھی طرح یاد کرنا ضروری ہے۔
وزیر فینانس کی بجٹ تیاری
وزیر فینانس ارون جیٹلی نے ملک کی مالیاتی اور معاشی صورتحال کو چیلنج سے بھرپور قرار دے کر اپنے آنے والے بجٹ کے خدوخال کا ایک علامتی خاکہ پیش کیا ہے۔ بجٹ تجاویز پر غوروخوض کرتے ہوئے انہوں نے بی جے پی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ کو موافق عوام یا موافق سرمایہ دار بنانے کی کوشش کی جائے گی یا نہیں، یہ چند دن میں معلوم ہوگا۔ وزیر فینانس پر اس وقت ٹیکس رعایتوں کے لئے زور دیا جارہا ہے۔ سرمایہ کاری کی رفتار کو بڑھانے اور پیداوار کو فروغ دینے کے لئے جرأت مندانہ ٹھوس اصلاحات کا عمل لازمی ہے۔ صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور مارکٹ کے دیگر مالیاتی اداروں کے ذمہ داروں نے ٹیکس شرحوں میں کمی، سونے کی برآمدات کے شرائط میں نرمی، ٹیکس قانون میں ترمیم کے ساتھ گڈس اینڈ سرویسیس ٹیکس اور ڈائریکٹ ٹیکس کوڈ کو فوری نافذ کرنے کے بشمول کئی ایک مطالبات پیش کئے ہیں۔ بجٹ میں شخصی انکم ٹیکس کی استثنیٰ حد 2 لاکھ روپئے سے بڑھاکر 5 لاکھ روپئے کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ بی جے پی نے انتخابات میں عوام سے راحت کے اقدامات کے وعدے کئے تھے۔ اب اسے اپنی بجٹ تجاویز میں ایسے راحت کے اقدامات کا ثبوت دینا ہوگا۔ ٹیکس دہندگان پر سے غیرضروری بوجھ ہٹا لیا جاتا ہے تو اس سے بڑی راحت ہوگی لیکن نئے فینانس منسٹر کو یہ بھی تجویز پیش کی گئی ہے کہ بینکنگ لین دین پر ٹیکس عائد کیا جائے، لیکن اس سے دیگر مالیاتی مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ بی جے پی کو اپنے انتخابی وعدہ کے مطابق انکم ٹیکس کو مکمل برخاست کرنے اور زائد از 100 اشیاء پر سے سیلس ٹیکس میں نرمی کرنی پڑے تو اس وقت ملک کی مالیاتی کیفیت کیا ہوگی، یہ بجٹ تجاویز پر عمل آوری کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ عوام بی جے پی حکومت سے بے شمار توقعات وابستہ کرکے انتظار کررہے ہیں کہ آخر وہ اس کی طرز زندگی کو بہتر بنانے کے لئے کیا ٹھوس مالیاتی اور معاشی اقدامات کرتی ہے کیونکہ ماضی کی حکومتوں نے مالیاتی اُمور سے چھیڑچھاڑ کرنے کا حوصلہ و ہمت نہیں دکھایا تھا۔ بی جے پی کو ہمت کا مظاہرہ کرنا ہے۔