کانگریس اور مودی کی رائے

اے ذوقِ طلب خود تری منزل ہے ابھی دور
چلنا ہے تو رفتار ذرا اور بڑھادے
کانگریس اور مودی کی رائے
وزیراعظم نریندر مودی نے مرکز میں اقتدار کے حصول کیلئے جس طرح کی کوشش کی تھی اس کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ بات درست ہیکہ دنیا میں بڑے کاموں کا آغاز خوابوں سے ہوتا ہے۔ ہر شخص کے شوق کی ایک بلندی ہوتی ہے اور اس کی ہمتوں کی وجہ سے اسے جو کچھ ملتا ہے اس کا اپنا ہوتا ہے۔ وزیراعظم مودی بھی خود کو اس صف میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں لیکن اپنے مخالفین کو بھی وہ ہرگز بخشنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ سرگرم سیاست میں حلیف و حریف کا مسئلہ وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں دو ریاستیں یوپی اور پنجاب بی جے پی کیلئے اہم ہیں۔ پنجاب میں اس مرتبہ مخالف حکمران لہر کے سامنے بی جے پی، شرومنی اکالی دل اتحاد کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے تو وزیراعظم کی حیثیت سے مودی نے یہاں انتخابی مہم کا آغاز اپوزیشن کانگریس پر اپنی برہمی ظاہر کرتے ہوئے کیا۔ قومی پارٹی کو قصہ پارینہ قرار دے کر مودی نے یہ بھی کہا کہ کانگریس اب ایک ڈوبتی کشتی ہے۔ پنجاب کے عوام نے کانگریس کو فراموش کردیا ہے۔ وزیراعظم یہ خیال کس طرح ظاہر کرسکتے ہیں کہ پنجاب میں کانگریس یا کسی اور پارٹی کا وجود نہیں ہے۔ انتخابی مہم کو کامیاب بنانے کیلئے ہر پارٹی کو اپنے حصہ کے طور پر کوشش کرنی ہوتی ہے لیکن نریندر مودی نے اپنی تقریروں کے ذریعہ رائے دہندوں کے ذہنوں میں یہ بات پیوست کرنے کی کوشش کی ہیکہ بی جے پی کے سامنے اب کوئی بھی پارٹی صرف قصہ پارینہ ہی ہوگی۔ اس میں شک نہیں کہ کانگریس اپنی ہی غلطیوں سے پیدا کردہ خرابیوں کی ارتھی لے کر در در کی ٹھوکریں کھارہی ہے۔ جہاں تک پنجاب کا معاملہ ہے اس مرتبہ یہاں کا رائے دہندہ غوروفکر کے ساتھ ووٹ دینے کی سوچ رہا ہے۔ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی نے بھی پنجاب میں انتخابی مہم کا محاذ کھول دیا ہے لیکن ان کی مہم سابق کی طرح سرد دکھائی دیتی ہے تو کانگریس کو پیچھے ہی رہ جانا پڑے گا۔ کانگریس کے پنجابی لیڈر امریندر سنگھ کو چیف منسٹر امیدوار بنانے اور سابق بی جے پی لیڈر نوجوت سنگھ سدھو کی کانگریس میں شمولیت نے یہاں پارٹی کو ایک اچھی قوت تو ملی ہے۔ کانگریس کو پنجاب میں اپنے احیاء کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔ پنجاب میں گذشتہ 10 سالہ حکمرانی کا تجربہ رکھنے والی شرومنی اکالی دل، بی جے پی اتحاد کو اپنے رائے دہندوں کے سامنے جانے سے پہلے ماضی کے وعدوں اور ان پر عمل آوری کا ریکارڈ بھی پیش کرنا پڑے گا۔ پنجاب بی جے پی نے حال ہی میں اپنا منشور جاری کیا، جس میں انفراسٹرکچر کی ترقی، غربت کے خاتمہ، تعلیم اور صحت نگہداشت پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ منشور میں یہ بھی وعدہ کیا گیا کہ لڑکیوں کیلئے پی ایچ ڈی تک مفت تعلیم دینے کے بشمول دیگر سہولتیں دی جائے گی۔ معاشی طور پر کمزور طبقات سے جو لڑکیاں تعلق رکھیں گی انہیں فائدہ ہوگا۔ بی جے پی کے ان انتخابی وعدوں کا کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے خاص کر کانگریس کو پنجاب میں سہ رخی مقابلہ ہے۔ سیکولر رائے دہندے یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مرکز کی بی جے پی زیرقیادت حکومت نے آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ پنجاب ایک سیکولر ریاست ہے یہاں تمام سیکولر پارٹیوں کو اپنے ووٹ تقسیم ہونے سے روکنے کی فکر رکھنی چاہئے۔ پنجاب میںاس وقت زیادہ مسئلہ نوجوانوں میں منشیات کی بڑھتی لعنت کا ہے۔ کانگریس نے وعدہ کیا ہیکہ وہ اقتدار پر آنے کے بعد پنجاب کو منشیات کی لعنت سے آزاد کرائے گی۔ گذشتہ 10 سال کے دوران پنجاب کی نوجوان نسل کو بے راہ روی سے روکنے کیلئے حکمراں اتحاد نے کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ لڑکیوں کی مفت تعلیم دینے کا وعدہ کرنے والی بی جے پی کو معاشی اور سماجی ابتری کی جانب سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی مگر وہ پنجاب میں اتحادی حکومت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر دوبارہ رائے دہندوں سے ووٹ کی امید کررہی ہے تو یہ وقت ہی بتائے گا کہ پنجاب اور دیگر انتخابی ریاستوں کے رائے دہندے موافق حکمرانی ووٹ دیں گے یا مخالف حکمرانی لہر کا ساتھ دے کر ایک کارگر حکومت تشکیل دینے میں مدد کریں گے۔ کانگریس کیلئے یہ انتخابات اپنی بقاء کی جنگ لڑنے کیلئے ایک اچھا موقع ہیں مگر اس نے خرابیوں کو دور کرنے میں اب تک کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ایسے میں اس کے خلاف وزیراعظم نریندر مودی کا خیال کہ کانگریس اب قصہ پارینہ بن چکی ہے درست ثابت ہوسکتا ہے۔
مابعد نوٹ بندی بجٹ سے توقعات
ہندوستان کو معاشی طور پر مستحکم بنانے، رشوت سے پاک کرنے اور کالے دھن کے خاتمہ کی کوششوں کے درمیان مرکزی حکومت کے عام بجٹ کے تعلق سے کافی توقعات وابستہ کئے جارہے ہیں۔ نریندر مودی حکومت کے اہم نعرے ’’میک ان انڈیا‘‘ اسٹارٹ اپ انڈیا اور اسکل انڈیا کو درست سمت میں لے جانے کی کوششوں کے اب تک بہتر نتائج سامنے آتے دکھائی نہیں دیئے۔ نوٹ بندی کے بعد عام بجٹ کیا ہوگا اس پر غور کرنے کیلئے ماہرین معاشیات سر جوڑ کر بیٹھے ہیں۔ ہندوستان میں مینوفیکچرنگ کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینے پر توجہ دی جارہی ہے تو عالمی سطح پر تجارت کو مضبوط بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہندوستان کو عالمی سطح پر تیزی سے معاشی طور پر ترقی کرنے والا ملک تسلیم کیا جارہا ہے تو عالمی بینک نے عالمی پیداوار و ترقی کی شرح 2.7 فیصد مقرر ہے جبکہ ہندوستان کا جی ڈی پی سال 2014-15ء میں 7.2 سے بڑھ کر سال 2015-16ء میں 7.6 ہوا ،لیکن نوٹ بندی کے بعد یہ شرح فیصد گھٹ گیا، لیکن اس کو ایک مختصر مدتی ٹھہراؤ سمجھا جارہا ہے۔ اگر طویل مدتی تناظر میں دیکھا جائے تو معاشی فوائد کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہیکہ کالے دھن کا خاتمہ، ٹیکس کی زیادہ سے زیادہ وصولی، رشوت میں کمی، تجارت کیلئے بہترین ماحول پیدا کرنا، مالیاتی خسارہ کو کم سے کم کرنے کی جانب اقدامات کرنے ہوں گے۔ مابعد نوٹ بندی بجٹ 2017-18ء مودی حکومت کیلئے ایک کڑی آزمائش ہوگی۔