طوفان کی آمد کی علامات ہیں واضح
بند کرنا اپنی آنکھیں مسئلہ کا حل نہیں
کانگریس ارکان پارلیمنٹ کا اخراج
ہر انسان کو اپنے وطن کی مٹی سے پیار ہوتا ہے وہ اس کی خاطر جان دے دیتا ہے ۔ یہ بات سیما آندھراقائدین کو سمجھنے میں دیر ہورہی ہے ۔ تلنگانہ کے عوام اپنی سرزمین سے پیار کرتے ہیں اس لئے سیما آندھرا کے قائدین سے کہتے آرہے ہیں کہ وہ اپنا راستہ ناپ لیں ،اس ساری جدوجہد کے درمیان سیما آندھرا کے ارکان پارلیمنٹ ، ارکان اسمبلی حتیٰ کہ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے بھی اپنی ضد نہیں چھوڑی ۔ کانگریس پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ، ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی بہت پہلے کرنی چاہئے تھی لیکن دیر آئد درست آئد کے مصداق کانگریس نے اپنے باغی ارکان کو برطرف کرکے ایک طرح سے سکون کی سانس لی ہے ۔ 6 ارکان پارلیمنٹ کا پارٹی سے اخراج ابھی آغاز ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ہر لیڈر یا رکن پارلیمنٹ کو اپنی آواز بلند کرنے اور احتجاج کا حق ہے لیکن ایسا نہیں کہ وہ اپنے ذاتی مفادات کے لئے ساری ریاست بلکہ تمام ملک کو یرغمال بنا رکھیں ۔ 15ویں لوک سبھا کا آخری سرمائی سیشن جاری ہے ۔ اس میں اہم بلوں کی منظوری اور عوامی مسائل کی یکسوئی لازمی ہے مگر کانگریس کے چند ارکان نے سارا ایوان سر پہ اُٹھا رکھا تھا ۔ تلنگانہ کے خلاف اپنی دشمنی کا مظاہرہ وہ پارلیمانی دائرہ میں طوفانی بدتمیزی کے ساتھ کررہے تھے ۔ ملک کو یرغمال بنائے رکھنا ہرگز ناپسندیدہ حرکت ہوتی ہے، رکن پارلیمنٹ کو اس کے اپنے اصول ضوابط اداب ہوتے ہیں مگر سیما آندھرا کے ارکان نے تمام اصولوں قواعد کو بالائے طاق رکھا تھا ۔
پارلیمنٹ میں ارکان کی ہنگامہ آرائی روز کا معمول بن جائے تو حکمراں پارٹی ہو یا اپوزیشن پارٹی کو اپنے احتجاجی ارکان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہمت کرنی چاہئے تاکہ ایوان کا نظم و ضبط برقرار رہے سکے ۔ یہ ارکان پارلیمنٹ وہی ہیں جو عنقریب 16 ویں لوک سبھا کے لئے منتخب ہونے اپنے رائے دہندوں سے رجوع ہونے والے ہیں۔ یہ قائدین اپنی روٹی روزی بچانے کے لئے یہ تمام ڈرامے کررہے ہیں۔ انھیں سیما اندھرا کے عوام سے کوئی سروکار ہے نہ تلنگانہ کے عوام سے ہمدردی ہے یہ تو بس اپنے مفادات کی پوجا کرتے ہیں۔ اگرچیکہ یہ ارکان عام آدمی کی نماندگی کرتے ہیں لیکن ان کے اوصاف عام آدمی کے برعکس ہیں۔ چند گوشوں سے تجویز ہے کہ لوک سبھا میں آئے دن ہنگامہ آرائی ایک معمول کا حصہ بن گئی ہے اگر تمام ارکان پارلیمنٹ اور سیاسی پارٹیاں آنے والے لوک سبھا کو ایک منظم اور اسپرٹ کے ساتھ چلانے کی آرزو رکھتی ہیں تو انھیں ایک ایسا قانون لانا ہوگا جس کی مدد سے ایوان میں 15 منٹ سے زائد گڑبڑ کرنے والوں کو از خود نااہل قرار دیا جاسکے یا پھر ارکان پارلیمنٹ کو اپنے مطالبات کی جانب توجہ مبذول کرانے کیلئے ایوان کے اندر ایک مخصوص وقت مختص کیا جائے جس میں وہ احتجاج بھی کریں اور پلے کارڈس تھامے دھرنا دے کر بیٹھ جائیں بعد میں ان کا کوئی بھی احتجاج انھیں ایوان کی رکنیت سے نااہل کردے۔ اگر ان تجاویز کو زیرغور لایا جائے تو قانون کی حکمرانی کو نافذ کرنے میں مدد ملے گی ۔ یہ جرأت کی بات تھی کہ خود اپنی پارٹی کے خلاف ارکان نے تحریک عدم اعتماد پیش کیا تھا ۔ کانگریس کو اس مسئلہ پر سخت گیر ہونا ضروری تھا ۔ حکومت کے خلا تحریک عدم اعتماد کی نوٹس اس سے پہلے بھی پیش کی گئی تھی لیکن تب اور اب میں فرق یہ ہے کہ کانگریس ہائی کمان نے تلنگانہ کے حق میں تمام اقدامات کو قطعیت دیدی ہے تو اس میں رکاوٹ پیدا کرنا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا ۔ جن سیما آندھرا قائدین نے تلنگانہ کے تعلق سے بل کی تیاری سے قبل یہ بیان دیا تھا کہ انھیں پارٹی ہائی کمان کا ہر فیصلہ قابل قبول ہوگا تو وہ بعدازاں اپنے موقف سے ہٹ گئے ۔ صدر کانگریس سونیا گاندھی نے سیما آندھرا کے 6 ارکان پارلیمنٹ سبم ہری ، جی وی ہرشا کمار ، ارون کمار ،ایل راج گوپال ، آر سامبا سیوا راؤ اور اے سائی پرتاب کو پارٹی سے خارج کردینے اے آئی سی سی کی تادیبی کمیٹی کے فیصلہ کو منظوری دے کر اپنے درد سر سے چھٹکارا پالیا ہے ۔
ان ارکان کی یہ شکایت ہے کہ 30سال کی وفاداری کا انھیں یہ صلہ دیا گیا ہے لیکن ارکان کو یہ بھی احساس ہونا چاہئے کہ انھوں نے قومی پارٹی کی سرپرستی میں اپنی مفادات کی دنیا کتنی وسیع کرلی تھی ۔ ارکان پارلیمنٹ کے خلاف کارروائی بہت پہلے کی جاتی تو آندھراپردیش میں باغی سرگرمیوں کو روکنے میں مدد ملتی ۔ تلنگانہ کے حق میں فیصلہ سازی میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی ۔ کانگریس نے ضرورت سے زیادہ چھوٹ دے کر اپنے سیاسی مستقبل کو نقصان پہونچالیا ہے ۔ ارکان پارلیمنٹ کے اخراج کے ذریعہ کانگریس نے غالباً آندھراپردیش کے دیگر باغی ارکان کو انتباہ دیا ہے کہ ان کی حرکتوں سے پارٹی کو نقصان ہوگا تو ان کے خلاف بھی تادیبی کارروائی کی جائے گی ۔ چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کے لئے واضح اشارہ ہے بلکہ کانگریس ہائی کمان کے اقدامات کے بعد ریاست کی صورتحال ہر دو کیلئے خدشات کے عین مطابق رونما ہوگی ۔ پارلیمنٹ کے جاریہ سیشن میں تلنگانہ بل منظور کرلیا جائے تو تلنگانہ میں کانگریس کو اچھی نگاہوں سے دیکھا جائے گا ورنہ وہ ریاست کے دونوں علاقوں کے عوام سے دور ہوجائے گی ۔