وعدہ تو کیا لیکن تکمیل نہیں ہوگی
یہ آگ ہی ایسی ہے ہر اک کو جلاتی ہے
کالے دھن کے خلاف مودی حکومت کی دوڑ
بیرونی ملکوں میں کالے دھن کو پوشیدہ رکھنے والوں کے ناموں کے انکشاف میں پس و پیش کرنے والی مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں 7 افراد اور ایک کمپنی کے نام پیش کئے ہیں۔ ایک سیاستداں دوسرے سیاستداں کا خیال رکھتا ہے اس لئے مودی حکومت نے سپریم کورٹ میں پیش کردہ ناموں میں کسی سیاستداں کا ذکر نہیں کیا ہے۔ صرف ان لوگوں کے نام ظاہر کئے گئے ہیں جن کے خلاف غیرقانونی کالے دھن کو جمع کرنے کی پاداش میں مواخذہ چل رہا ہے۔ مودی حکومت کو فرانس اور جرمنی کے حکام نے تقریباً 800 اکاونٹ ہولڈرس کی تفصیلات فراہم کی تھیں۔ اگر حکومت کو اس فہرست میں کسی غیرقانونی کالے دھن کا پتہ چلتا ہے تو اس کا فرض ہیکہ وہ ہندوستانی عوام کو واقف کروائے مگر حکومت نے صرف 7 ناموں کا ذکر کیا جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ صرف قیاس آرائیاں ہورہی ہیں کہ اس فہرست میں کانگریس قائدین کے نام بھی شامل ہیں۔ مرکز کی بی جے پی حکومت کو کالے دھن کے مسئلہ پر سیاسی تماشے کرنے کا موقع ملا ہے تو وہ ان ناموں کے ساتھ کھلواڑ کرنے یا بلیک میل کا حربہ اختیار کرے گی تو انصاف کا تقاضہ فوت ہوگا۔ یہاں اصل مسئلہ ملک کے مالیہ کو غیرقانونی طور پر بیرونی ملکوں میں جمع کرانے کے خلاف کارروائی کا ہے۔ حکومت اس کارروائی کے بہانہ کسی سیاستداں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے بلیک میل کرتی ہے تو پھر عوام کی حمایت کا ناجائز فائدہ اٹھانا قرار پائے گا۔ بلاشبہ جو بھی پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تمام سرکاری محکموں اور نظم و نسق پر اس کا ہی کنٹرول ہوتا ہے۔ ایسے میں حکومت تماشہ بناتے ہوئے وقت ضائع کرے گی تو ہندوستان کی دولت واپس لانے میں مدد نہیں ملے گی۔ بیرونی ملکوں میں ہندوستان کی دولت کو غیرقانونی طور پر کالے دھن کی شکل میں لاکھوں کروڑ روپئے جمع ہے۔ اس تعلق سے سرکاری طور پر کوئی قطعی اعداد و شمار سامنے نہیں آئے ہیں۔ اندازہ کے مطابق 1948 سے لیکر 2008ء تک کے ریکارڈ کالادھن بیرونی ملکوں میں پوشیدہ رکھا گیا ہے جو 28.6 لاکھ کروڑ ہوسکتا ہے۔ سی بی آئی کے سابق ڈائرکٹر نے اندازہ کے مطابق 31.4 لاکھ کروڑ روپئے کی رقم بتائی تھی۔ بی جے پی کی ٹاسک فورس رپورٹ 2011ء میں بتایا گیا تھا کہ 86.8 کروڑ روپئے بیرونی بنکوں میں کالے دھن کی شکل میں جمع ہیں۔ اس خطیر رقم کو ہندوستان لایا گیا تو یہاں کے غریبوں کیلئے اچھے دن آئیں گے۔ کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کرکے اقتدار حاصل کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی کی ذمہ داری ہیکہ وہ اپنی حکومت کی جانب سے ہر ممکنہ کوشش کریں۔ بیرونی بنکوں میں جمع ہندوستانیوں کے کالے دھن کو حاصل کرلیں۔ ٹیکس سے بچنے کیلئے کروڑہا روپئے بیرونی بینکوں میں رکھنا قانوناً جرم ہے تو ان خاطیوں کے خلاف ہندوستانی قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف انڈیا ایچ وی دتو نے کیس کی سماعت شروع کی ہے۔ حکومت کا کام ہیکہ وہ دیانتداری سے اس کیس کو حتمی سطح تک لے جاکر سزاؤں کا اعلان کروائے۔ بظاہر مودی حکومت کالے دھن کو واپس لانے کیلئے تیز تر اقدامات کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سوئزرلینڈ پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ہندوستانیوں کی تفصیلات فراہم کرے۔ اب سوال یہ ہیکہ سوئزرلینڈ کے بنکوں میں جمع کالے دھن کے مالکین میں بی جے پی کے سیاستدانوں کی تعداد کتنی ہے۔ اس تعداد کا درست انکشاف کیا جائے گا یا نہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کیلئے صرف فرضی مہم چلائی گئی تو اس کا الٹا اثر ہوگا۔ بی جے پی، کانگریس اور دیگر پارٹیوں کے سیاستدانوں کے علاوہ ہندوستان کے کئی دولت مندوں نے اپنا کالادھن بیرون ملکوں میں جمع کیا ہے۔ خاص کر ہندوستانی تاجرین کی بڑی تعداد ایسی ہے جو اپنے کالے دھن کو پوشیدہ رکھنے کیلئے بڑی پارٹیوں کو فنڈس فراہم کرتے ہیں۔ انتخابات کے دوران ان ہی تاجروں کے فنڈس سے انتخابی مہم چلائی جاتی ہے جو بعدازاں کسی ایک پارٹی کے اقتدار پر آنے کے بعد تاجرین اپنے کالے کارناموں پر سفیدی پھیلانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہاں قصور سراسر ان سیاسی پارٹیوں کا ہے جو اپنے مفادات کیلئے بڑے تاجروں سے فنڈ لے کر ملک کا سودا کرتے ہیں۔ عوام کے حقوق کو سلب کرلیتے ہیں۔ قدرتی وسائل پر اندھادھند طریقہ سے قبضہ کرتے ہیں۔ اس لئے آزادی کے بعد سے اب تک کالے دھن کے مالکین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ فی الحال جن ناموں کو ظاہر کیا گیا ہے یہ نام پہلے ہی خاطیوں کی فہرست میں شامل ہیں اور ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔ ان میں سے کئی نے کالے دھن کو رکھنے کی تردید کی ہے۔ ٹیکس چوری کے الزامات کو مسترد کردیا ہے۔ اب بی جے پی صرف اپنے انتخابی وعدہ کی تکمیل کے حصہ کے طور پر اس آگ میں اپنی انگلیاں جلانے کی کوشش کررہی ہے تو اس کا خمیازہ بھی اسے ہی بھگتنا پڑے گا۔