آنکھ کسی کے چہرے پر اور دل میں دھیان کسی کا
ہم بھی کیا ہیں ‘ بات کسی سے وہم و گمان کسی کا
کالا دھن اور حکومت کی سنجیدگی
کالا دھن ہندوستان میں ایک اہم مسئلہ ہے ۔ بے شمار ہندوستانیوں نے لاکھوں کروڑ روپئے کی دولت بیرونی ملکوں میں جمع کر رکھی ہے اور اس سے حکومت اور ابنائے وطن لا علم ہیں۔ اب جبکہ یہ تفصیلات دھیرے دھیرے سامنے آتی جا رہی ہیں اور اس مسئلہ پر رائے عامہ بھی ہموار ہوتی جا رہی ہے اس لئے سیاسی جماعتوں نے اس جانب توجہ دینے کا فیصلہ کیا تھا اور انتخابات سے قبل تو کالے دھن کے مسئلہ کو ایک مکمل سیاسی مسئلہ بنادیا گیا تھا ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیشتر سیاستدان ہی ہیں جنہوں نے بیرونی ممالک خاص طور پر سوئیٹزر لینڈ میں ہندوستان میں غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ دولت اور وہ دولت جس پر انہوں نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا ہے چھپا کر رکھی ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ بیوروکریٹس ‘ کارپوریٹس اور دوسرے ایسے درجنوں افراد ہیں جنہوں نے یہ رقومات بیرونی ممالک میں رکھی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب انا ہزارے نے کرپشن کے خلاف مہم شروع کی تھی اس کے بعد سے دھیرے دھیرے کالے دھن کا مسئلہ بھی اہمیت حاصل کرتا گیا اور حکومتوں نے یہ ادعا کیا تھا کہ وہ بیرونی ممالک میں پوشیدہ رکھے گئے کالے دھن کو ہندوستان واپس لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کرینگے ۔ بی جے پی لیڈر کی حیثیت سے انتخابی مہم چلاتے ہوئے نریندر مودی نے ادعا کیا تھا کہ اگر ان کو اقتدار مل گیا تو وہ اندرون 100 دن کالا دھن واپس لانے موثر اقدامات کرینگے ۔ مودی حکومت کے اقتدار کو چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا ہے لیکن اس تعلق سے مودی حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اس مسئلہ پر حکومت کی توجہ ہی نہیں ہے ۔ اس کے بالکل برعکس حکومت نے آج سپریم کورٹ میں واضح کردیا ہے کہ وہ ان افراد کے نام تک نہیں بتاسکتی جنہوں نے بیرونی ممالک میں اکاؤنٹس کھولے اور رقومات جمع کر رکھی ہیں۔ حکومت کی جانب سے عدالت میں پیش ہوتے ہوئے سینئر قانون داںاٹارنی جنرل مکل روہتگی نے کہا کہ اگر یہ نام حکومت کی جانب سے ظاہر کردئے گے تو اسے بیرونی ملکوں میں اپنے ان ذرائع کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جن توسط سے یہ نام اسے مل رہے ہیں۔ یہ وہی عذر اور بہانہ ہے جو اب تک کی حکومتیں عدالتوں میں اور عوام کے سامنے پیش کرتی آئی ہیں۔ مودی حکومت نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے ۔
گذشتہ دنوں میں سوئیٹزر لینڈ میں کچھ مقامی قوانین میں ترمیم کردی گئی تھی جس کے بعد حکومت کیلئے وہاں اکاؤنٹس رکھنے والے افراد کے نام اور دیگر تفصیلات وغیرہ سے آگہی حاصل کرنا آسان ہوگیا تھا ۔ اب حکومت عدالت میں بھی کالا دھن جمع رکھنے والے افراد کے نام تک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہے اور وہ سابقہ روایتی وجوہات بیان کرتے ہوئے خود کو اس مسئلہ سے الگ تھلگ رکھنا چاہتی ہے ۔ ایسے میں جو وعدے کئے گئے تھے کہ کالا دھن واپس لانے کیلئے وہ سب برفدان کی نذر ہوگئے ہیں اور کسی عملی کارروائی کے آغاز کیلئے نریندر مودی حکومت بھی تیار نہیں ہے ۔ انتخابات سے قبل بی جے پی کے سینئر لیڈر ایل کے اڈوانی نے بھی بیان بازی کی تھی اور انہوں نے اس وقت کی یو پی اے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور بے عمل قرار دیا تھا ۔ اب ایل کے اڈوانی بھی نریندر مودی حکومت کی اسی روش اور پالیسی پر لب کشائی سے گریز کئے ہوئے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ وہ تقریبا تمام ہی مسائل پر چپ سادھ چکے ہیں۔ نریندر مودی نے انتخابات سے قبل جس انداز سے مہم چلائی تھی یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ واقعتا کالا دھن واپس لانے کیلئے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کی جائیگی لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا اس کے برخلاف حکومت عدالت میں بھی بے نامی کھاتے رکھنے والے افراد کے نام تک ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ ایسی حکومت سے بیرونی ممالک میں رکھے گئے کالے دھن کو واپس لانے کی امید کرنا فضول نظر آتا ہے ۔
انتخابات سے قبل بی جے پی اور مودی کے حق میں مہم چلانے والے یوگا گرو رام دیو نے بھی کالا دھن واپس لانے کیلئے زور و شور سے مہم چلانے کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے بھی اس مسئلہ پر یو پی اے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کی کوشش کی تھی ۔ انتخابات کے بعد وہ بھی خاموش ہوگئے ہیں۔ انہیں بی جے پی کے حق میں مہم چلانے کا ثمر مل چکا ہے ۔ ان کے ایک قریبی ساتھی کے خلاف خود بیرونی زر مبادلہ کی خلاف ورزیوں کا الزام عائد تھا اور حکومت نے اس کے خلاف تحقیقات کو عملا ختم کردیا ہے ۔ بی جے پی کے صدر امیت شاہ کی جانب سے باضابطہ طور پر رام دیو کو تہنیت پیش کی گئی اور بی جے پی کو اقتدار دلانے میں ان کے رول کا اعتراف کیا گیا ۔ یہ سب کچھ سیاسی موقع پرستی پر مبنی رہا اور کالے دھن کی واپسی کا اصل مسئلہ دھرا کا دھرا رہ گیا اور مستقبل قریب میں کالے دھن کو واپس لانے کی کوئی امید بھی نظر نہیں آتی ۔ حکومت ‘ این جی اوز اور سبھی فکرمند گوشوں کو پوری سنجیدگی کے ساتھ کالا دھن واپس لانے کی جستجو کرنی چاہئے جو ہندوستانی عوام کا حق ہے ۔