ہندوستانی سیاستدانوں کے کالے دھن کے مسئلہ پر حکمراں پارٹی بی جے پی کی قلابازیاں تعجب خیز ہیں۔ جب وہ اپوزیشن میں تھی تو کالے دھن کو واپس لانے اور خاطی سیاستدانوں کا پتہ چلانے کا مطالبہ کرتی رہی تھی ۔ اب وہ مرکز میں اختیار کُل کے ساتھ اقتدار میں ہے تو کالے دھن سے متعلق حاصل ہونے والی معلومات کو منکشف کرنے سے ڈرامائی موقف اختیار کیا ہے ۔ سوال یہ اُٹھ رہا ہے کہ کیا بی جے پی کے لیڈروں نے سچ بولنا چھوڑ دیا ہے ، کیا میڈیا کو ہی ان کالے دھن کے وارثوں کے ناموں کا پتہ چلاکر انکشاف کرنا چاہئے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کے دائیں اور بائیں نظر آنے والے قائدین کو بچانے کیلئے اپوزیشن کے قائدین کے ناموں کو منکشف نہ کرنے کا بہانہ تلاش کیا جارہا ہے ۔ وزیر فینانس ارون جیٹلی نے کانگریس کو انتباہ دیا کہ اگر سوئس بنکوں میں رکھے گئے کالے دھن سے متعلق ناموں کا انکشاف کیا گیا تو اسے ( کانگریس ) کو پشیمانی ہوگی ۔ ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھا کرنے والوں کو بے نقاب کرنے میں حکمراں پارٹی کو کسی پس و پیش کی ضرورت نہیں ہے۔ انھوں نے ان ناموں کو بہت جلد منظرعام پر لانے کا اعلان کیا ہے ۔ ان کی دیانتداری کا تقاضہ یہی ہے کہ وہ تمام سیاستدانوں کے ناموں کو آشکار کریں ،اس میں اپنی پارٹی کے قائدین کو بے نقاب نہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ سراسر بددیانتی کہلاے گی ۔ جن کالے دھن کے مالکوں کے خلاف ہندوستانی حکام نے الزامات عائد کئے ہیں انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے انتخابی وعدہ کو پورا کرنا ہوگا ۔
رشوت سے پاک حکمرانی و سرکاری نظم و نسق کا دعویٰ کرنے والی حکومت کے لئے یہ ایک شاندار موقع ہے کہ سوئس بنکوں میں رکھے گئے ہندوستان کی دولت کو واپس لانے کی مساعی کرے مگر تکلیف دہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی حکومت سوئس بنکوں سے دولت واپس لانے کی کوشش نہیں کرسکتی ۔ ہندوستان کے غریب عوام کا پیسہ لوٹ کر سمندر پار بینکوں میں پوشیدہ رکھنے والے سیاستداں بہ بانگ دہل خود کے پارسا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ بی جے پی کو مرکز میں اپنے اختیارات کا استعمال کرنے کا وقت آگیا ہے تو وہ کانگریس کو نشانہ بناکر ملک کی دولت سوئس بنکوں میں چھوڑنے کی غلطیوں کا احیا نہ کرے ۔ یقینا یہ قومی المیہ ہے ۔ جن بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے وہاں حکمراں پارٹی شوشہ بازی میں مصروف ہے ۔سوئس بنکوں کا رویہ بھی تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے ۔ عالمی سطح پر سوئس بنکوں کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ تمام بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور اپنے بنکوں کو دنیا بھر کے کالے دھن کے لوگوں کا ناجائز پیسہ محفوظ رکھنے کی محفوظ جگہ بنارہے ہیں۔ ساری دنیا میں غریب اقوام سے لوٹا گیا ناجائز دھن ان بنکوں میں محفوظ ہے ۔ اس کی نگرانی کرنے والے سوئس اتھارٹیز بنکنگ صنعت کے وقار و اعتماد کو بھی پامال کررہے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کو سب سے پہلے بیوریوکریسی کی بالادستی ختم کرنا ہوگا
اور اپنے نظم و نسق کو سوپر اسٹرکچر کے ذریعہ ترقی دے کر عوام کو ایک بہترین حکمرانی دینے کا وعدہ پورا کرنا ہوگا ۔ بی جے پی کو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ ملک کے لٹیروں کے نام عوام کے سامنے پیش کرے مگر اسے بھی ڈر ہے کہ ان لٹیروں میں اس کے قائدین بھی ہوں گے ۔ وزیراعظٓم مودی کو اپنا انتخابی وعدہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ عوام کا حافظہ کمزور نہیں ہے ۔ انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ جب وہ اقتدار پر آئیں گے تو کالے دھن کو واپس لائیں گے لیکن بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت نے سپریم کورٹ میں یہ بیان دیا کہ اس کو ان ملکوں سے تمام معلومات حاصل ہوتی ہیں جن کے ساتھ ہندوستان نے دوہرے ٹیکس گریز معاہدہ ہوتے ہیں لیکن وہ ان معلومات کو منکشف نہیں کرسکتی ۔ اس کے بعد مودی حکومت پر تنقیدیں ہورہی ہیں کہ اس نے سپریم کورٹ کو بتادیا ہے کہ بیرون ملک پوشیدہ کالے دھن کے تمام معلومات کے حصول کے باوجود وہ کچھ کرنے سے قاصر ہے ۔ سماجی جہد کار انا ہزار نے پھر ایک بار رشوت ستانی اور کالے دھن کے خلاف احتجاج شروع کرنے کی دھمکی دی ہے ۔ ان کی اس طرح کی دھمکیوں کا کسی بھی حکومت پر اثر نہیں ہوتا دکھائی دیا ہے ۔ ماضی میں بھی انھوں نے کانگریس کے خلاف دھرنے دیئے تھے جس کی عوض کانگریس کو سیاسی نقصان سے دوچار ہونا پڑا اب بی جے پی کو انا ہزارے کے احتجاج کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے ۔ بی جے پی کے قائدین بھی اس صف میں شامل ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ اپنے کالے دھن کو بیرونی بنکوں میں پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں۔