کررہے تھے آپ وعدہ جاننے کے باوجود
اپنا یہ وعدہ نبھانا آپ کے بس میں نہیں
کالا دھن اورحکومت کا موقف
کالے دھن کا مسئلہ ان دنوں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ مرکز میں نریندر مود ی حکومت کے قیام کے بعد سے یہ امیدیں ظاہر کی جا رہی تھیں کہ کرپشن کے خلاف سخت گیر موقف اختیار کرنے اور موثر اقدامات کا وعدہ کرنے والی بی جے پی کی حکومت اس سلسلہ میں ایسی کارروائی کریگی جس کے نتیجہ میں بیرونی ملکوں میں چھپایا گیا ہزاروں بلکہ لاکھوں کروڑ روپیہ ہندوستان واپس لانے میں مدد ملے گی ۔ انتخابات سے قبل بی جے پی کے تقریبا تمام قائدین اور خود نریندر مودی نے عوام کو یہ تیقن دیا تھا کہ کالے دھن کو وطن واپس لانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائیگی کیونکہ یہ ہندوستانیوں کا پیسہ ہے جس کو غیر قانونی اور ناجائز طریقوں سے حاصل کیا گیا تھا ۔ کالے دھن کو واپس لانے میں ٹال مٹول کا اس وقت کی یو پی اے حکومت پر الزام عائد کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ایسا کرتے ہوئے حکومت کالا دھن رکھنے والوں کو بچنے کے راستے فراہم کر رہی ہے ۔ تاہم اب اقتدار ملنے کے بعد این ڈی اے حکومت نے بھی وہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے جو یو پی اے حکومت نے اختیار کیا تھا ۔ اب نریندر مودی حکومت اور اس کے ذمہ دار مسلسل یہ بیان دے رہے ہیں کہ بیرونی ملکوں سے جو معاہدے کئے گئے ہیں ان کے نتیجہ میں حکومت تمام راز ظاہر نہیں کرسکتی ۔ اس کی تحقیقات جاری ہیں اور بیرونی ملکوں سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں ان کا جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ حکومت اب سپریم کورٹ کی مداخلت کے نتیجہ میں قدرے حرکت میں آنے پر مجبور نظر آتی ہے اور اس نے کہا ہے کہ بیرونی ملکوں میں کالا دھن چھپاکر رکھنے والوں کی شناخت ہوگئی ہے اور کچھ افراد نے اس کا اعتراف بھی کرلیا ہے ۔ حکومت کی جانب سے تاہم ابھی تک بھی ان کے خلاف جو کارروائی کی گئی ہے یا کی جارہی ہے یا کی جانے والی ہے اس تعلق سے کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ کالے دھن کا مسئلہ نریندر مودی حکومت کیلئے آسان نہیں ہے اور یہاں مودی حکومت بھی سابقہ یو پی اے حکومت کی طرح مصلحتوں کا شکار ہوتی جا رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اطلاعات کی فراہمی جیسے اہم کام میں بھی مخصوص افراد کے ناموں کے افشا کی کوشش کی تھی اور ساری اطلاعات کو عام کرنے سے گریز کیا ہے ۔
یہ تو سارا ملک اور ملک کے عوام جانتے ہیں کہ بیرونی ملکوں میں جن افراد یا اداروں یا تنظیموں نے بھاری رقومات چھپا کر رکھی ہیں وہ قانونی طور پر حاصل کردہ دولت نہیں ہے بلکہ یہ غیر قانونی اور ناجائز طریقوں سے حاصل کردہ دولت ہے اور ہندوستان میں اس پر ٹیکس ادا کرنے سے گریز کرتے ہوئے اسے بیرونی ممالک کو منتقل کردیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود حکومت کی مصلحتیں اس معاملہ میں تحقیقات کو آگے بڑھانے میں ناکام ہیں اور مصلحتوں کے نتیجہ میں ہی کچھ افراد کو یا اداروں کو اپنے بچنے کی راہیں تلاش کرن کا موقع مل رہا ہے ۔ حکومت کی سطح پر اس معاملہ میں پوری دیانتداری اور غیر جانبداری سے کارروائی کی امید رکھنے والے عوام کو مایوسی ہوتی جا رہی ہے ۔ جن افراد نے انتخابات سے قبل کالے دھن کے مسئلہ پر یو پی اے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا اب وہ مودی حکومت کی مصلحتوں پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ۔ ان میں یوگا گرو رام دیو بھی شامل ہیں ۔ یوگا گرو نے انتخابات سے قبل کالے دھن کے مسئلہ پر کافی سرگرمی دکھائی تھی اور یو پی اے حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ انہیں اس مہم کا صلہ بھی مل چکا ہے ۔ بی جے پی نے پارٹی کو اقتدار دلانے میں ان کے رول کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تہنیت پیش کی ہے اور انہیں زیڈ زمرہ کی سکیوریٹی بھی فراہم کردی ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کالے دھن کے مسئلہ پر بھی سیاست کی گئی ہے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے بعد اس اہم ترین مسئلہ ہر مصلحتوں کے تحت کام کیا جا رہا ہے ۔ یہ مصلحتیں حکومت کی ہوسکتی ہیں لیکن ملک کے عوام کارروائی کے منتظر ہیں۔
انتخابات سے قبل اندرون 100 یوم کالا دھن وطن واپس لانے کا وعدہ کرنے والی مود ی حکومت چھ ماہ سے زائد کا وقت گذر جانے کے بعد اب یہ کہہ رہی ہے کہ کالا دھن واپس لانے میں کچھ وقت ضرور لگے گا ۔ یہ ٹال مٹول کی پالیسی ہے ۔ یہ درست ہے کہ یہ کام راتوں رات نہیں ہوسکتا اور اس کیلئے کچھ وقت لگے گا لیکن یہ واضح ہوگیا ہے کہ بی جے پی نے اس مسئلہ پر عوام سے جھوٹا وعدہ کیا تھا ۔ حکومت کو چاہئے کہ اس اہمیت کے حامل مسئلہ میں کسی طرح کی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر پوری غیر جانبداری کے ساتھ اور کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر کارروائی کرتے ہوئے کالے دھن کو وطن واپس لانے کو یقینی بنائے ۔ اس سلسلہ میں حکومت کو اپوزیشن جماعتوں اور عوامی حلقوں کو اعتماد میں لیتے ہوئے اقدامات کرنے چاہئیں ۔ یہ کرپشن سے پاک انتظامیہ فراہم کرنے مودی حکومت کے وعدہ کی تکمیل کی سمت ایک اہم قدم ہوگا ۔