مولانا غلام رسول سعیدی
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دورِ خلافت میں اُٹھنے والے فتنوں کی اصلاح کی مسلسل کوشش کرتے رہے۔ اس دوران حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مشورہ دیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں حالات کی تحقیق کے لئے وفود روانہ کئے جائیں، چنانچہ ۲۵ھ میں محمد بن مسلمہ کوفہ، اسامہ بن زید بصرہ، عمار بن یاسر مصر، عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) شام اور بعض دیگر صوبہ جات کی طرف روانہ ہوگئے۔ نیز تمام ممالک میں گشتی اعلان جاری کردیا گیا کہ ’’میں (حضرت عثمان غنی) عموماً حج کے موقع پر تمام حکام کو جمع کرتا ہوں اور جس حاکم کے خلاف کوئی شکایت پیش کی جاتی ہے، فوراً تحقیق کرکے اس کا ازالہ کردیتا ہوں۔ اس کے باوجود اگر کسی شخص کو کسی حاکم کے خلاف شکایت ہو تو مجھ سے بیان کرے، میں تحقیق کرکے مظلوم کا حق ظالم سے دِلاؤں گا‘‘۔
ابن خلدون اور طبری نے بیان کیا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحقیق کے لئے جن صحابۂ کرام کو روانہ کیا تھا، حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا سب واپس آگئے تھے۔ مصر میں عبد اللہ بن سباء، خالد بن ملجم اور کنانہ بن بشر وغیرہ شرپسند موجود تھے، ان لوگوں نے حضرت عمار بن یاسر کو واپس نہیں آنے دیا، حتیٰ کہ یہ گمان کرلیا گیا کہ حضرت عمار بن یاسر ان شرپسندوں کے ہاتھوں شہید ہو گئے۔ (تاریخ طبری،ج۳،صفحہ۹۹)
اسی دوران ابن سباء کے تربیت یافتہ لوگوں نے آپس میں مل کر ایک سازش تیار کی اور بصرہ، کوفہ اور مصر سے تقریباً دو ہزار فتنہ پرداز اپنے اپنے شہروں سے حاجیوں کی وضع میں مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے، تاکہ اپنے مطالبات حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بزور تسلیم کروائیں۔ جن میں سے ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ حاکم مصر عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح کی جگہ محمد بن ابوبکر (یہ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے پروردہ تھے) کو حاکم مقرر کیا جائے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کرکے یہ مطالبہ تسلیم کرلیا اور ابن سرح کی معزولی اور محمد بن ابی بکر کی تقرری کا پرانہ لکھ کر انھیں دے دیا۔ پھر یہ لوگ واپس چلے گئے، تاہم چند دنوں کے بعد دفعتاً گھوڑوں کی ٹاپوں اور ’’انتقام، انتقام‘‘ کی صداؤں سے مدینہ کے درودیوار گونج اُٹھے۔ صحابۂ کبار گھبراکر اپنے گھروں سے نکلے اور دیکھا کہ مفسدوں اور باغیوں کی جماعت واپس آگئی ہے۔ مفسدین کا کہنا تھا کہ ہمیں راستہ میں دربارِ خلافت کا ایک قاصد ملا، جس کے پاس والی مصر کے نام یہ ہدایت تھی کہ ان لوگوں کی گردن ماردی جائے۔ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ سے مکمل لاعلمی اور حیرت کا اظہار کیا۔ باغیوں نے کہا: ’’جس خلیفہ کو اتنی سی بات کی بھی خبر نہ ہو، وہ خلافت کا اہل نہیں ہے‘‘ لہذا ان لوگوں نے حضرت عثمان غنی سے مطالبہ کیا کہ وہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں۔ (طبقات ابن سعد، ج۵،صفحہ۳۲)
اس وقت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ’’اللہ تعالیٰ تم کو ایک قمیص پہنائے گا، لوگ اس کو اُتارنے کی کوشش کریں گے، تم اس قمیص کو مت اُتارنا‘‘۔ آپ نے فرمایا: ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس قمیص سے مراد یہی خلافت کی قمیص ہے‘‘۔
حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انکار پر تقریباً دو ہزار باغیوں نے کاشانۂ خلافت کا نہایت سخت محاصرہ کرلیا، جو مسلسل چالیس دن تک جاری رہا۔ حضرت عثمان کا گھر بہت وسیع تھا، آپ کی حفاظت کے لئے صحابۂ کرام اور تابعین سمیت سات سو افراد موجود تھے، جن کی قیادت حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کر رہے تھے۔ انھں نے باغیوں سے لڑنے کی اجازت طلب کی تو فرمایا: ’’اگر ایک شخص بھی میری خاطر لڑنا چاہے تو میں اس سے خدا کے لئے کہتا ہوں کہ وہ میری خاطر خون نہ بہائے‘‘ (مسند احمد، ج۱،صفحہ۷۲) اس وقت حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں بیس غلام تھے، آپ نے ان سب کو بلاکر آزاد کردیا۔ (اقتباس)