گاندھی جینتی کے موقع پر جے این یو کے سابق لیڈر کنہیا کمار کا خطاب
حیدرآباد۔3اکٹوبر(سیاست نیوز) جواہرلال نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار نے گاندھی جینتی کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہاتما گاندھی اور لال بہادری شاستری کی جینتی پر سارے ملک کو مبارکباد پیش کی اور کہاکہ آج سوشیل میڈیا کے اس دور میں لوگ مخالف سوشیل امور انجام دے رہے ہیں۔ گاندھی جی کہتے تھے ’’برا مت دیکھو‘ برامت کہو اور برا مت سنو ‘‘مگر آج کے دور میںگاندھی جی ہوتے تو ضرور کہتے کہ’’ برا مت لائیک کرو‘ برا مت شیئر کرو او ربرا مت کمنڈ کرو‘‘۔کنہیا کمار ’ سچ کی پراچھائیوں ‘‘ کے عنوان پر خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہاکہ تیزی کے ساتھ ترقی کرتے انفارمیشن او رٹکنالوجی کے اس دور کی پہلی نسل منفی اثرات کا شکار ہورہی ہے۔ جب کبھی ٹکنالوجی کے شعبہ میںاصلاحات آئے تو اس کے منفی اثرات کا نوجوانوں کے ذہنوں پر اثر پڑا ۔ مثال کے طور پر موبائیل فون میںکیمرے کی تنصیب کے ساتھ ایم ایم ایس کے چلن کے عام ہونے کے واقعات پیش کئے او رکہاکہ جب کبھی بھی انفارمیشن اورٹکنالوجی کے دور میںانقلاب آیاتو پہلی نسل اس کے منفی اثرات کاشکار ہوئی جبکہ دوسری نسل منفی اثرات کو ختم کرنے کاکام کرتی رہی جبکہ تیسری نسل اس کا بہتر استعمال کرسکی ہے۔مہاتماگاندھی کی سونچ کو جس بندوق کی گولی سے ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس بندوق کے نشانہ پر آج ہندوستان کی جمہوریت ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ گاندھی جینتی کے موقع پر ملک کے سب سے پریشان حال کسان طبقے پر لاٹھیاں برسائیںگئیں اور پانی کی بوچھار کے ذریعہ انہیںروکنے کی کوشش کی گئی ۔ اگر آج گاندھی جی ہوتے توضرور وہ کسانوں کی حمایت میںسڑک پر اترتے۔ انہوں نے کہاکہ کسانوں سے ہمدردی کی باتیں تو کی جاتی ہیںمگر ان پر عمل ندادر ہے ۔ اور بابائے قوم کی جینتی کے موقع پر پریشان حالی میںجمہوری احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ بد سلوکی نے ثابت کردیاکہ مودی حکومت کو کسانوں سے ہمدردی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کہتے ہیںکہ گٹر میںاتر کر صفائی کرنے بھی روحانی تسکین حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور جو تسکین صفائی کرنے والوں کوملتی ہے اس کا عام شہری اندازہ نہیں کرسکتا۔ کنہیا کمار نے کہاکہ اگر یہ حقیقت ہے تو وزیر اعظم اور ان کے منسٹرس یوگا کرنے کے بجائے کیوں گٹر میں اتر کر صفائی نہیں کرتے ‘ انہیں روحانی تسکین مل جائے گی۔کنہیاکمار نے کہاکہ مہاتما گاندھی نے مزدوروں ‘ کسانوں ‘ عورتوں اور نوجوانوں سبھی کو انصاف دلانے کے لئے جدوجہد کی ہے۔انہوں نے کہاکہ ’ہر پیلی چیز سونا نہیںہوتا اور ہر گجراتی گاندھی نہیںہوتا ‘ یہ مثال آج ہمارے سامنے ہے ۔ جہاں مہاتماگاندھی اور لال بہادر شاستری نے اپنے اصولوں کی خاطر عہدوں کو ٹھوکر ماری وہیں وزیراعظم ہند نریندر مودی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر سرمایہ کاروں اورصنعت کاروں کے مفادات کے لئے اپنا فرض نبھا رہے ہیں۔ حکومت کی ناکامیو ں پر اٹھائے جانے والے سوالات کو گمراہ کرکے نہرو سے ان کا جواب تلاش کرنے کی باتیںکی جارہی ہیں۔ رافیل میںبدعنوانی پر اگر سوال کریں تو وزیرخزانہ اس کا جواب دیتے ہیں‘ ریلوے نظام پر اگر سوال کریں تو ‘ وزیر ٹکسٹائیل اس کاجواب دیتے ہیں۔ اپنے شعبہ سے وابستہ کوئی بھی سوال کا متعلقہ وزیر جواب نہیںدیتا ۔ عوام کو سمجھ میں نہیںآرہا ہے کونسا قلمدان کس وزیر کے پاس ہیں۔انہوں نے کہاکہ وزیراعظم بھی وزیرخارجہ کی ذمہ داری اپنے سپر د لے لی او ردنیا بھر کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ صنعت کاروں کا تین لاکھ بارہ ہزار کروڑ کا قرض معاف کردیا گیا مگر کسانوں کا قرض معافی کو تعطل کاشکار بنایاجارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ لال بہادر شاستری جب ریلوے منسٹر تھے تو اس وقت ٹرین حادثہ پیش آیاتھا جس پر اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے شاستری جی نے اپنا استعفیٰ پیش کردیا تھا مگر آج کچھ بھی ہوجائے ہمارے منسٹرس بالخصوص موجود ہ بی جے پی حکومت کے منسٹرس اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہی نہیںہوتے ہیں۔ کارپوریٹ طبقے کی اجارہ داری کو ختم کرنے کے لئے چھوٹی اورگھریلوصنعت کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ کنہیا نے سوالیہ انداز میںکہاکہ صنعت کاروں کو جو قرض مودی حکومت نے معاف کیاہے اس کی نصف رقم ملک میںہرسال بننے والے انجینئرس کو انفراسٹرکچر کی ترقی کی تاکید کے ساتھ حوالے کی جائے تو کیاملک کی ترقی ممکن نہیںہے۔انہوں نے کہاکہ سوال کرنے پر آج کل مارکٹ میں اربن نکسل کا اسٹیگر فروخت کیا جارہے وہ آپ پر چسپاں کردیاجائے ۔ ہمیں مہاتما گاندھی ‘ بابا صاحب امبیڈکر اور بھگت سنگھ کے راستے پر چلتے ہوئے ملک کو ترقی کی طرف لے جانا ہے۔ نرم اور سخت ہندوتوا پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کنہیا کمار نے کہاکہ سخت او ر نرم دونوں ہی خراب ہندوتوا کی پہچان ہیں۔ انہو ںنے کہاکہ ماحول کو نیاسیاسی رنگ دینے کے لئے ان دوالفاظ کی ایجاد عمل میں آئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ راہول گاندھی ‘ ششی تھرور جیسے لوگوں کونرم ہندوتوا کاعلمبردار ‘ مودی جی او ریوگی جی کو سخت ہندوتوا کا ماننے والا بتانے کے لئے ان الفاظ کی ایجا دعمل میں آئی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور میںجس مٹھ کی نمائندگی کرتے ہیںان کے پاس تو بھگوان کاصرف تصو ر کیاجاتا ہے اس کی شکل وصورت پر گورکھ ناتھ مٹ کے لوگ یقین نہیںرکھتے پھر کس طرح یوگی ادتیہ ناتھ بھگوان رام کے مندر کی تعمیر کے لئے نمائندگی کررہے ہیں یہ بات سمجھ کے باہر ہے۔ ہمیںگاندھی جینتی کے موقع پر اس بات کاعہدہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہمیںباپو کی لاٹھی کااستعمال کرنا ہے تاکہ ملک میںفرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ مل سکے‘ کسانوں کے ساتھ انصاف ہو‘پسماندہ طبقات کے مسائل دور ہوجائیں‘ خواتین اور لڑکیوں کومردوں کے ساتھ مساوی حقوق مل سکیں۔