ہاسپٹلس تجارتی اداروں میں تبدیل ، جذبہ انسانی خدمت کے بجائے پیشہ وارانہ تجارت
حیدرآباد۔30مارچ (سیاست نیوز) شہر کے کارپوریٹ دواخانے تجارتی مراکز میں تبدیل ہوتے جا رہے ہیں‘ دواخانے کا نام آتے ہی ذہن و دل میں ہمدردی آجایا کرتی تھی لیکن فی زمانہ دواخانے کا تصور تجارتی مرکز میں تبدیل ہو تا جا رہا ہے۔حیدرآباد میں موجود کارپوریٹ ہاسپٹلس کا اب تک دواخانہ پہنچنے والے شکار ہوا کرتے تھے یا پھر علاج و معالجہ میں بہتر کارہائے نمایاں انجام دیتے ہوئے اسے اپنی تشہیر کا ذریعہ بنایا جاتا تھا لیکن اب کارپوریٹ ہاسپٹلس تشہیر سے کچھ آگے بڑھ چکے ہیں اور اضلاع و پڑوسی ریاستوں کے ساتھ بیرون ملک میں اپنے ایجنٹ پھیلاتے ہوئے مریض کی شکل میں گاہک تلاش کر رہے ہیں۔کئی کارپوریٹ دواخانوں کی جانب سے اس طرح کے ایجنٹس کو بہترین پیشکش فراہم کی جا رہی ہے۔ عمان‘ دبئی‘ ابو ظہبی‘ مسقط‘ شارجہ‘ افریقی ممالک کے علاوہ شہر حیدرآباد کے نواحی علاقوں اور پڑوسی ریاستوں کے قریبی اضلاع میں بھی یہ ایجنٹ سرگرم ہیں جو دواخانے تک مریض کو پہنچانے کا کام انجام دیتے ہوئے بھاری کمیشن لیتے ہیں اور دواخانہ کا انتظامیہ ایجنٹ کو ادا کیا گیا کمیشن بھاری بلوں کی شکل میں مریض سے وصول کر لیتے ہیں۔ دواخانوں کو تجارتی مراکز کی طرح چلائے جانے کے سبب پیدا ہورہے مسائل سے ہر کوئی واقف ہیںلیکن اس مسئلہ کا حل نکالا جانا ناگزیر ہے ‘ حکومت پراس بات کی ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ خود ایسے دواخانوں پر نظر رکھتے ہوئے کاروائی کرے جو ایجنٹس کے ذریعہ مریضوں کو نشانہ بنارہے ہیں۔ بیشتر کارپوریٹ ہاسپٹلس میں بھاری بل وصول کئے جانے کی شکایات کی بنیادی وجوہات میں سب سے اہم وجہ یہی سمجھی جا رہی ہے اور کہا جا رہا ہیکہ دواخانوں پر جو اضافی مصارف عائد ہو رہے ہیں
وہ مریضوںسے وصول کئے جا رہے ہیں جس کے سبب علاج مہنگا ہوتا نظر آرہا ہے۔ حالیہ عرصہ میں معروف اداکار عامر خان کے ایک ٹی وی شو کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا تھاکہ دواخانوں کی جانب سے ڈایئگناسٹک سنٹرس کو بھی بھاری کمیشن ادا کیا جاتا تھا ا وراب ا یجنٹس کو ادا کی جارہی رقومات سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دواخانہ کے ذمہ دار علاج و معالجہ کا مرکز نہیں بلکہ تجارتی مرکز چلا رہے ہیں۔ کارپوریٹ دواخانہ سے وابستہ ایک ذمہ دار نے بتایا کہ یہ بات صحیح ہے کہ کارپوریٹ دواخانوں کی جانب سے مارکٹنگ کی جارہی ہے لیکن اس کی وجہ مریض کو نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ اس شعبہ میں تیزی سے فروغ حاصل کر رہی مسابقت ہے جہاں ایسا کرنا درست سمجھا جانے لگا ہے‘ دواخانوں میں علاج ومعالجہ کے معاملات میں مسابقت ہو تو بہتر ہے لیکن سہولتوں کی فراہمی کے نام پر کی جانے والی مسابقت درست نہیں ہے۔ شہر کے ایک کارپوریٹ ہاسپٹل میں آج اسی طرح کا واقعہ پیش آیا جہاں پڑوسی ریاست کرناٹک کے ایک مریض کو دوران علاج صرف اسلئے دواخانہ چھوڑنا پڑا چونکہ مریض کے پاس مزید ادائیگی کے لئے پیسہ نہیں تھا۔ تفصیلات دریافت کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ دواخانہ کے کسی ایجنٹ نے مریـض کے گھر والوں کو اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ 1 تا 2 لاکھ روپئے میں علاج مکمل ہو جائیگا لیکن اندرون 2یوم رقم مکمل ہوجانے پر دواخانے کی جانب سے مزید رقم جمع کروانے کا مطالبہ شروع کردیا گیا جب مریض کے رشتہ داروں نے رقم کی ادائیگی سے معذو ری ظاہر کردی تو اسی حالت میں مریض کو دواخانے سے ڈسچارج دے دیا گیا۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ دواخانہ نے اس امید پر موصولہ رقم میں ایجنٹ کو حصہ ادا کردیا کہ مریض کے رشتہ دار کسی بھی حال میں علاج مکمل کروائیں گے۔