وابستہ کریں کس سے ہم اپنی امیدیں
اس دور میں ہر شخص وفا بھول گیا ہے
کارپوریٹ جاسوسی
ملک میں کارپوریٹ شعبہ کے اثر و رسوخ سے ہر کوئی واقف ہے ۔ کارپوریٹ شعبہ ملک کی تقریبا تمام سیاسی جماعتوں کو خطیر رقومات فراہم کرتے ہوئے ان سے تعلقات کو خوشگوار رکھنا اپنے کاروبار کا حصہ سمجھتا ہے ۔ ایسے میں جس کسی جماعت کی حکومت قائم ہوتی ہے وہ کارپوریٹ شعبہ کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے انہیں مراعات بھی فراہم کرتی ہیں۔ یہ شعبہ حالانکہ کروڑہا ڈالرس کا کاروبار کرتا اور نفع کماتا ہے لیکن مراعات بھی اسے ہی ملتی ہیں۔ ماضـی میں کئی موقعوں پر حکومتوں کی جانب سے کارپوریٹس کی سرپرستی اور انہیں مراعات کی بے شمار مثالیں موجود ہیں اور ساتھ ہی کارپوریٹ شعبہ کی جانب سے سرکاری پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ کئی سرکاری عہدیدار اور ملازمین کارپوریٹ شعبہ کی جاسوسی کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ ایسے میں اب ایک اور کارپوریٹ جاسوسی معاملہ سامنے آیا ہے جس میں وزارت تیل کے دو عہدیداروں اور دیگر پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ۔ یہ پتہ چلا ہے کہ وزارت کے عملہ اور ان کے معاون درمیانی آدمیوں نے بھاری اور خطیر رقومات کے عوض سرکاری راز کارپوریٹ گھرانوں کو پیش کئے ہیں۔ اس معاملہ میں حالانکہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ذرائع نے مبینہ طور پر ریلائنس انڈسٹریز کا نام لیا ہے ۔ سرکاری سطح پر ابھی کسی بھی کارپوریٹ گھرانہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔ تاہم جو دستاویزات چوری سے حاصل کرکے ان کی تفصیلات اور نقول کو کارپوریٹ گھرانوں کو پیش کیا گیا تھا وہ انتہائی اہمیت کے حامل کہے جا رہے ہیں۔ یہ شبہ بھی ہے کہ ان دستاویزات میں وزیر فینانس کی جانب سے جاریہ ماہ کے اواخر میں پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے والے بجٹ کی تقریر کا کچھ حصہ بھی شامل تھا ۔ یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے ۔ وزیر پٹرولیم مسٹر دھرمیندر پردھان نے اس کی اہمیت کو گھٹانے کی کوشش کی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ معمول کا عمل ہے اور ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے ۔ ایسی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں۔ وزیر پٹرولیم کا یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے اور اگر ایسی مثالیں ماضی میں ملتی ہیں تو یہ حال میں پیش آنے والے واقعات کا جواز نہیں ہوسکتیں اور نہ ہی حکومت کے متعلقہ اور ذمہ دار وزیر کو ایسا بیان دینا ذیب دیتا ہے ۔
کارپوریٹ جاسوسی کے تازہ ترین معاملہ میں چونکہ حساس نوعیت کے دستاویزات کے افشا کا معاملہ ہے اس لئے اس کو انتہائی سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے ۔ اس کو معمول کا عمل قرار دیتے ہوئے عوام کی توجہ مبذول کروانا درست نہیں ہوسکتا ۔ چونکہ ان دستاویزات میں حکومت کے پالیسی دستاویزات کا حصہ بھی شامل ہے اور بجٹ تقریر کے مواد کی موجودگی کا بھی شبہ ہے اس لئے بھی اس کو معمول کا عمل قرار نہیں دیا جانا چاہئے ۔اس معاملہ میں جو افراد گرفتار کئے گئے ہیں ان سے مکمل معلومات حاصل کرتے ہوئے اس معاملہ کی تہہ تک پہونچنے کی ضرورت ہے ۔ یہ پتہ چلانے کیلئے کہ کن کن رازوں کو کارپوریٹ گھرانوں کو فروخت کیا گیا اور ان رازوں کے استعمال سے کارپوریٹ گھرانوں نے کتنا فائدہ حاصل کیا اور سرکاری خزانوں کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ان سب کی تفصیلات کا پتہ چلا کر انہیں عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک کے عوام کو بھی یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ سرکاری رازوں کی حفاظت میں بھی حکومت ناکام رہی ہے اور ان رازوں کے افشا کی وجہ سے کارپوریٹ گھرانے کروڑہا روپئے کا فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت کو کارپوریٹ جاسوسی اور کارپوریٹ لابیئنگ کو روکنے کیلئے بھی موثر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا تدارک ہوسکے ۔ ایسا کرنا دستور ہند کے تحت حکومت کا فریضہ بھی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی ہے ۔
کارپوریٹ جاسوسی کا جو تازہ معاملہ سامنے آیا ہے اس کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہوگئی ہے کیونکہ جن اداروں کے نام اس میں لئے جا رہے ہیں وہ بہت بڑے کاروباری گھرانے ہیں اور ان کے خود مرکزی حکومت سے بھی قریبی مراسم ہیں۔ ایسے میں اگر حکومت تحقیقات میں اور حقائق کو منظر عام پر لانے میں کسی طرح کی تن آسانی سے کام لیتی ہے تو خود اس کے رول کے تعلق سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوسکتے ہیں۔ علاوہ ازیں یہ حکومت کے سرکاری رازوں اور پالیسی امور کے افشا کا معاملہ ہے ۔ حکومت کو اس سارے معاملہ کی تہہ تک پہونچنے کی ضرورت ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب کسی طرح کے دباؤ کا استعمال کئے بغیر پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کو اپنا فرض پورا کرنے کا موقع دیا جائے ۔ جو لوگ گرفتار ہوئے ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ کسی بڑی مچھلی کے آلہ کار ہوں ۔ ان کے پس پردہ جو لوگ ہیں ان کا چہرہ بھی بے نقاب کرنا ضروری ہے ۔