ٹی آر ایس کی سیاسی حالات پر گہری نظر ، تقسیم ریاست کا عمل شروع ہوگیا ، کے سی آر کا ردعمل
حیدرآباد ۔ یکم جنوری (سیاست نیوز) صدر ٹی آر ایس کے چندر شیکھر راؤ نے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی جانب سے اسمبلی اجلاس سے عین قبل تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے وزیر کو امور مقننہ کے قلمدان سے محروم کئے جانے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے ڈی سریدھر بابو کو اسمبلی اجلاس سے عین قبل امور مقننہ کے قلمدان سے محروم کرتے ہوئے سیما آندھرا سے تعلق رکھنے والے وزیر شلیجا ناتھ کو امور مقننہ کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ چندر شیکھر راؤ نے کہا کہ کابینہ میں کی گئی ان تبدیلیوں سے تلنگانہ حامیوں اور عوام کو غیر ضروری طور پر الجھن کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ ان تبدیلیوں پر مشتعل نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے آخری مرحلہ میں اس طرح کی کوششیں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مخالف تلنگانہ عناصر کی سرگرمیوں سے تشکیل تلنگانہ سے کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ دستور ہند کے مطابق مرکزی حکومت ریاست کی تقسیم کا عمل شروع کرچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کی تقسیم روکنے کا قانون ساز اسمبلی اور کونسل کو کوئی اختیار نہیں۔ لہذا عوام کو اسمبلی اور کونسل کی سرگرمیوں سے متفکر ہونے کی ضرورت نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ریاستوں کی تقسیم اور نئی ریاستوں کی تشکیل کا اختیار پارلیمنٹ کو حاصل ہے۔ لہذا اسمبلی کی کارروائی میں رکاوٹ یا پھر مباحث کو روکنے کی کوششوں سے ریاست کی تقسیم کے عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسی دوران چندر شیکھر راؤ نے پارٹی کے سینئر قائدین کے ساتھ تازہ ترین سیاسی صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہوں نے چیف منسٹر کی جانب سے قلمدانوں کی تبدیلی سے تلنگانہ وزراء میں پائی جانے والی ناراضگی کے سبب اسمبلی اجلاس کے دوران پارٹی کی حکمت عملی پر بھی غور کیا۔ چندر شیکھر راؤ ، تلنگانہ وزراء اور قائدین سے ربط میں ہیں اور ان سے اس بات کی خواہش کر رہے ہیں کہ وہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرتے ہوئے اسمبلی میں تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کے آغاز میں رکاوٹ کا سبب نہ بنیں۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ کے سی آر نے چیف منسٹر کے اس اقدام کو مخالف تلنگانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں سریدھر بابو کی جانب سے تلنگانہ مسودہ بل پر مباحث کی تائید کئے جانے کے سبب ان کے قلمدان کو تبدیل کردیا گیا۔ پارٹی ان حالات میں سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھے گی۔ انہوں نے پارٹی قائدین کو اس مسئلہ پر محتاط تبصرہ کرنے کی ہدایت دی ہے۔