کئی برس تک ہر ماہ 1 ملین ہندوستانی 18 سال کے ہوجائیں گے!

نئی دہلی ، 26 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) سومینی سین گپتا کی عمر آٹھ برس تھی کہ اُن کی فیملی نے کولکاتا چھوڑ کر کیلی فورنیا میں نئی زندگی شروع کی۔ اُن کا بچپن دونوں ملکوں کے درمیان سفر میں گزرا، یہاں تک کہ وہ 2005ء میں ہندوستان لوٹ آئیں جب انھیں نیویارک ٹائمز کیلئے نئی دہلی بیورو چیف کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ موجودہ طور پر نیویارک میں مقیم ہیں۔ اُن کی کتاب The End of Karma: Hope and Fury Among India’s Young میں ’’نیو اِنڈیا‘‘ کی کھوج سات مختلف افراد کی کہانیوں کے ذریعے کی گئی، جن میں رکشا ڈرائیور کے پُرعزم سپوت سے لے کر ماؤنواز باغی بن جانے والی نوجوان لڑکی شامل ہیں۔ سومینی نے انٹرویو میں مختلف امور پر روشنی ڈالی، جس کے اقتباسات پیش ہیں:

سومینی نے اس سوال پر کہ انھیں اپنی کتاب کا خیال کیوں کر آیا، یہ معلومات فراہم کئے کہ قلمبند تاریخ کے کسی بھی حصہ کا جائزہ لیں تو دنیا بھر میں ہندوستان میں کم عمر افراد کا سب سے زیادہ ارتکاز ہے  …  420 ملین ہندوستانیوں کی عمریں 15 اور 34 سال کے درمیان ہیں، اور اگلے کئی برسوں تک ہر ماہ 1 ملین ہندوستانی 18 سال کے ہونے جارہے ہیں۔ اس کا نہ صرف ہندوستانی معیشت، سماج اور سیاست پر غیرمعمولی اثر پڑتا ہے، بلکہ یہ ہم تمام باقی ماندہ افراد کیلئے دنیا کی ہیئت بھی طے کرے گی۔ اس کا نقل مکانی سے لے کر تبدیلیٔ آب و ہوا سے نمٹنے کی کوششوں تک لگ بھگ ہر پہلو پر اثر پڑے گا۔ میں کم عمر افراد کی نظروں سے انڈیا کو دیکھنے کی خواہش مند تھی۔ یوں تو ہندوستان ہمیشہ نوجوانوں کا ملک رہا ہے، مگر گزشتہ ایک دو نسلوں میں جو تبدیلی آئی، وہ یہ ہے کہ ہندوستانی خواتین اولاد کو جنم دینے میں کنجوس ہورہی ہیں اور اس لئے آبادی میں کم عمر بچوں کا تناسب بتدریج گھٹ رہا ہے اور معمر افراد کا تناسب بھی کئی دیگر ممالک کے مقابل کافی معمولی ہے، اور پھر برسرروزگار افراد کا زبردست اُبھار ہے۔ بے شک، یہ نام نہاد ’’آبادیاتی فائدہ‘‘ ہونا کسی بھی ملک کیلئے غیرمعمولی فائدہ کی بات ہے، لیکن اس سے بہت زیادہ توقعات، بھاری تقاضے بھی پیدا ہوسکتے ہیں، نیز جب توقعات پورے نہ ہوں تو مایوسیاں ہوتی ہیں۔

اپنی کتاب کے عنوان میں شامل فقرہ ’’کرما کا اختتام‘‘ کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے سومینی نے کہا کہ کم عمر افراد کی یہ نسل اپنے ڈھنگ سے کوشاں ہے کہ اپنے ماضی پر قابو پالیں۔ وہ اپنی نئی تقدیر رقم کرنے کوشاں ہیں۔ اس کتاب کا غالب موضوع وہ عزم اور تمام طریقے ہیں جن کو سرکاری پالیسیوں نے ناکام بنایا  …  جیسے اسکولوں کی ناکامی، یا بچپن میں ناکافی غذا کی اونچی سطحیں  …  یا سماج نے ناکام بنائے: یہ خیال کہ خواتین کمتر ہوتی ہیں اور انھیں محدود رکھا جانا چاہئے، یا ذات پات اور چھوت چھات سے متعلق افکار جو ہنوز پائے جاتے ہیں۔
ہندوستان کا نظام ذات پات اب بھی غیرمعمولی طور پر اٹل معلوم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ یہ اعداد و شمار پر غور کریں کہ 5% سے کم تر ہندوستانی اپنی ذات کے باہر شادی کرتے ہیں۔ کیا اس رجحان میں عنقریب تبدیلی کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ جب ہندوستانی دستور منظور کیا گیا تو اس نے قانون کی نظر میں مساوات کا عہد کیا، چاہے آپ کی ذات، جنس یا آپ کا مذہب کچھ بھی ہو، اور میرے لئے یہ پہلو نہایت غیرمعمولی ہے اور بانیانِ ہند کی طرف سے اس طرح کے پرت بہ پرت سماج میں بڑا جرأت مندانہ وعدہ کیا گیا ہے۔
سومینی نے ہندوستانی سماج میں ’’صنف ِ نازک کی وقعت میں کمی‘‘ کے تعلق سے بھی اظہار خیال کیا ہے، جو اُن کے مطابق رحم مادر سے شروع ہوجاتی ہے۔ یہ خیال مجھے میری بیٹی کی وجہ سے آیا جو دختر ہند ہے۔ میں آزادی کے وقت کئے گئے جرأت مندانہ وعدہ سے کافی متاثر ہوئی کہ خواتین سے مساویانہ برتاؤ کیا جائے گا، لیکن اس وعدہ کو وفا کیوں کر نہیں کیا جاسکا ہے۔ تاہم میرے خیال میں چند سال قبل دہلی میں اجتماعی عصمت ریزی پر جس قدر ہنگامہ ہوا، وہ واقعی فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ 2012ء کے ان احتجاجوں سے میں نے واقعی محسوس کیا کہ خواتین اب ظلم کو مزید برداشت کرنے والی نہیں ہیں۔
انڈیا کے تعلق سے بقیہ دنیا کی سب سے بڑی غلط فہمی کے بارے میں سومینی کا کہنا ہے کہ یوں تو کئی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک قیاس یہ ہے کہ ہندوستان ہنرمند، محنتی مگر علم حساب کے غیرمشاق افراد کی عمیق سرزمین ہے جو ہماری نوکریوں کو ہتھیانا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کم عمر ہندوستانیوں کی بڑی اکثریت عالمی معیشت میں مسابقت کے موقف میں نہیں۔ ان میں سے کئی دھوکہ دیئے جاچکے ہیں۔
ہندوستان میں موجودہ طور پر بڑی خامیوں میں ایجوکیشن سسٹم نمایاں ہے جو کئی بچوں کو عملی زندگی میں فائدہ نہیں دیتا ہے۔ متعدد سروے نے بتایا کہ پانچویں تک تعلیم پانے والوں میں سے نصف کو بنیادی نصابی کتب کو پڑھنا یا علم حساب کی تفریق کا معمولی سوال حل کرنا نہیں آتا ہے۔