ژنجیانگ۔ 3؍اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام)۔ چین نے کہا کہ غیر ملکی عسکریت پسندوں نے گزشتہ ہفتہ کے بڑے پیمانے پر حملہ میں حصہ لیا تھا جو شورش زدہ مسلم اکثریتی صوبہ ژنجیانگ میں کیا گیا تھا جس میں 37 شہری اور 59 دہشت گرد ہلاک ہوگئے تھے۔ سرکاری خبر رساں ادارہ ’ژنہوا‘ کے بموجب 37 شہری ہلاک ہوگئے اور 27 جولائی کو کئے ہوئے دہشت گردوں کے حملہ میں جو شاچے کاؤنٹی میں کیا گیا تھا، 13 افراد زخمی ہوئے۔ کاشغر ملحقہ علاقہ میں یہ حملہ کیا گیا۔ پولیس نے 59 دہشت گردوں کو گولی مارکر ہلاک کردیا اور دیگر 215 گرفتار کرلئے گئے۔ علاقائی حکومت کے بموجب سکریٹری ریجنل کمیٹی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا زانگ چنگ زیان کی زیر صدارت ایک اجلاس منعقد کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ سب سے پہلے حملہ کی خبر منگل کے دن ملی تھی، لیکن کوئی تعداد بتائی نہیں گئی تھی، صرف کئی افراد کے ہلاک ہونے کی خبر تھی۔
مہلوکین میں 35 ہن اور 2 ایغور شامل ہیں۔ حکومت کے بموجب تحقیقات سے انکشاف ہوتا ہے کہ یہ مشترکہ منظم اور پیشگی طئے شدہ دہشت گرد حملہ تھا جس کی سازش دہشت گردوں اور بیرون چین دہشت گردوں نے مل کر تیار کی تھی۔ یہ پہلی بار ہے جب کہ چین نے انکشاف کیا ہے کہ حملہ میں غیر ملکی دہشت گرد بھی شامل تھے۔ پولیس نے بڑے بڑے چاقو اور کلہاڑیاں ضبط کرلی ہیں۔ ان کے علاوہ دہشت گردوں کے بیانرس بھی دستیاب ہوئے جن پر ’جہاد‘ کی ستائش کی گئی ہے۔ حملہ میں جسے حالیہ عرصہ کا بدترین حملہ قرار دیا گیا ہے، ایک چاقوؤں اور کلہاڑیوں سے مسلح گروہ نے پولیس اسٹیشن اور سرکاری دفاتر پر صنعتی علاقہ الیگزو میں حملہ کردیا تھا۔ شہریوں کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور راستہ میں ملنے والی تمام گاڑیوں کو توڑ پھوڑ دیا گیا۔ گینگسٹرس نے سڑک پر رکاوٹیں بھی کھڑی کردیں۔ بچو۔سچے شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرکے گزرنے والی گاڑیوں کو روک دیا گیا۔ بعد ازاں مسافروں پر اندھادھند حملے کئے گئے۔ شہریوں کو مجبور کیا گیا کہ دہشت گرد حملہ میں شامل ہوجائیں۔ پولیس کے بموجب اس حملہ کا سازشی دماغ نورامت ساوت متوطن صنعتی علاقہ الیگزو تھا۔ اس نے مشرقی ترکستان اسلامی تحریک سے قریبی روابط قائم کرلئے ہیں جس کو القاعدہ دہشت گرد تنظیم کی حمایت حاصل ہے۔ وہ حالیہ برسوں میں صوبہ ژنجیانگ میں انتہائی سرگرم ہوگیا ہے۔ ساوت علیحدگی کی تحریک چلارہا ہے۔ علاوہ ازیں آڈیو اور ویڈیو مواد 2013ء سے تیار کررہا ہے جو مذہبی انتہا پسندی سے متعلق ہے۔ ا
س نے ایک بیان میں کہا کہ اس طریقۂ کار کے ذریعہ ایک دہشت گرد گروپ تشکیل دیا گیا ہے اور وہ اس کا لیڈر بن چکا ہے۔ یہ بھی پہلی بار ہے جب کہ چین نے تحریک کی قیادت کے بارے میں تفصیلات کا انکشاف کیا ہے جو اب تک ایک خفیہ تنظیم تھی۔ ماہِ رمضان کے آغاز سے ہی اس گروپ نے دور افتادہ مقامات پر اپنے کئی اجتماعات منعقد کئے جن کے دوران اس نے حملوں کے منصوبے بنائے اور اس کے لئے ہتھیار تیار کئے۔ ژنجیانگ مقامی ایغور مسلمانوں کا وطن ہے۔ یہاں پر گزشتہ ایک سال سے ایغور قبائیلیوں کی ناراضگی کی وجہ سے ایک تحریک چل رہی ہے، کیونکہ ہن نوآبادکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جو چین کے دوسرے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت چین کا الزام ہے کہ تحریک مبینہ طور پر پاکستان اور افغانستان کے قبائیلی علاقوں میں اپنے ہیڈکوارٹرس قائم کرچکی ہیں اور خفیہ سماجی کشیدگی کا فائدہ اُٹھارہی ہے۔ ژنجیانگ اور باقی ملک میں پُرتشدد حملے کررہی ہے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی سرحد سے متصل علاقہ کاشغر اور افغانستان کی سرحد سے متصل علاقے گزشتہ چند دن سے پُرتشدد کارروائیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔