حیدرآباد ۔ 8 ۔ جولائی (سیاست نیوز) کانگریس پارٹی کے سینئر قائد اور سابق صدر پردیش کانگریس ڈی سرینواس نے آج اپنے حامیوںکے ساتھ ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ تلنگانہ بھون میں منعقدہ تقریب میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ڈی سرینواس کا پارٹی میں استقبال کیا اور انہیں پارٹی کا کھنڈوا پہنایا۔ ڈی سرینواس کے ہمراہ ضلع نظام آباد کے تقریباً 39 کانگریسی قائدین نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی جن میں ان کے فرزند ڈی سنجے سابق میئر کے علاوہ دو زیڈ پی ٹی سی ارکان ، تین ایم پی ٹی ارکان ، 10 کارپوریٹرس مختلف اداروں کے 10 ڈائرکٹرس و عہدیدار اور پردیش کانگریس کمیٹی کے سکریٹریز شامل ہیں۔ وزیر زراعت پوچارام سرینواس ریڈی، رکن پارلیمنٹ کویتا کے علاوہ ضلع سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی اور کونسل اس موقع پر موجود تھے۔ چیف منسٹر نے ڈی سرینواس کا پارٹی میں خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی میں شمولیت سے ٹی آر ایس مضبوط ہوگی۔ انہوں نے کہاکہ سنہرے تلنگانہ کے تشکیل کے سلسلہ میں تعاون کرنے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرنے والے ڈی سرینواس کو میں سلیوٹ کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 35 برسوں سے ڈی سرینواس سے ان کے قریبی روابط رہے۔ مجھے اور ڈی سرینواس جیسی شخصیتوں کیلئے عہدے کبھی بھی اہمیت کے حامل نہیں رہے۔ چیف منسٹر نے کہا کہ عہدے کبھی بھی مستقل نہیں ہوتے لیکن عوام کی خدمت کے جذبہ کے ساتھ کام کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی سرینواس کی شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ ٹی آر ایس حکومت صرف وعدے نہیں بلکہ ان پر عمل کرنے والی حکومت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈی سرینواس کو ہر مسئلہ پر عبور حاصل ہے اور وہ ان سے صلاح و مشورے حاصل کرتے رہیں گے۔ چیف منسٹر نے آندھرائی قائدین کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہ قائدین تلنگانہ کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نوٹ برائے ووٹ اسکام کا حوالہ دیتے ہوئے چیف منسٹر نے کہا کہ اس معاملہ میں حکومت نے کچھ نہیں کیا بلکہ صرف چور کو رنگے ہاتھوں گرفتار کیا لیکن چندرا بابو نائیڈو اور ان کے حامی بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر حکومت پر تنقیدیں کر رہے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ آندھرائی قائدین نے طویل عرصہ تک حکمرانی کی اور ابھی بھی تلنگانہ پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ انہیں چاہئے کہ تلنگانہ عوام کو ان کی زندگی جینے کا موقع فراہم کریں۔ ہر ترقیاتی کام میں رکاوٹ پیدا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آندھرائی حکومت کو تلنگانہ کے امور میں مداخلت کے بجائے اپنے 13 اضلاع کی ترقی پر توجہ دینی چاہئے ۔ چیف منسٹر نے تلگو دیشم حکومت سے سوال کیا کہ کیا آندھرا میں عوام کے مسائل درپیش نہیں ہے؟ پھر ان کی یکسوئی پر توجہ کیوں نہیں دی جارہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے جبکہ آندھرائی قائدین اس تہذیب سے کافی دور ہیں، وہ عید مبارک لفظ کو صحیح طور پر ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ 1923 ء میں مہاتما گاندھی نے حیدرآباد کو عظیم تر شہر قرار دیا تھا۔ چیف منسٹر نے کہا کہ تلنگانہ کی تہذیب روایات اور گنگا جمنی تہذیب کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ چیف منسٹر نے کہا کہ نظام آباد سے تعلق رکھنے والے عوامی نمائندوں کی رائے حاصل کرنے پر تمام نے ڈی سرینواس کی شمولیت کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ قائدین کا یہ احساس تھا کہ ڈی سرینواس پارٹی کیلئے ایک اثاثہ ثابت ہوں گے ۔
تلنگانہ تحریک کے دوران ڈی سرینواس مجھ سے مختلف مسائل پر ربط میں رہے۔ علحدہ ریاست کے حصول کیلئے انہوں نے کافی جدوجہد کی۔ اس موقع پر ڈی سرینواس نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ کے ذریعہ ہی سنہرے تلنگانہ کی تشکیل ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کے سی آر کی قیادت میں تلنگانہ کو ترقی یافتہ ریاست میں تبدیل کرنے کیلئے اپنی خدمات پیش کریں گے۔ پارٹی کے ہر کارکن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کام میں اپنا حصہ ادا کریں۔ ڈی سرینواس نے کہا کہ تلنگانہ عوام کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا اعزاز کے سی آر کو حاصل ہے جنہوں نے 60 برسوں کی طویل جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ کے سی آر کی قیادت میں تلنگانہ ترقی کرے گا اور عوام کی خوشحالی یقینی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر کو تلنگانہ کے آبی اور قدرتی وسائل پر مکمل عبور حاصل ہے اور وہ ان کے بہتر استعمال کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس میں شمولیت کے اعلان پر کانگریس کے مختلف قائدین نے ان پر تنقید کی لیکن وہ کسی پر جوابی تنقید کرنا نہیں چاہتے۔ انہوں نے کہا کہ ضمیر کی آواز پر انہوں نے ٹی آر ایس میں شمولیت کا فیصلہ کیا لیکن آج ان کی جانب سے دیئے گئے بی فارم پر کامیابی حاصل کرنے والے افراد ان پر تنقیدیں کر رہے ہیں۔