حیدرآباد ۔ 17 ۔ جون : ( نمائندہ خصوصی ) : سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب قابل نظر انداز ہے ۔ اس کے باوجود انہیں اگر کوئی ملازمت مل بھی جائے تو متعصب ذہنیت کے حامل اعلیٰ عہدہ دار کسی نہ کسی طرح رکاوٹیں کھڑی کردیتے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ ان رکاوٹوں کو ہٹانے کے عوض وہ اپنے ہاتھ اور جیبیں گرم یہاں تک کہ پرس گرم کرانے کے خواہاں ہوتے ہیں ۔ محکمہ تعلیمات کے بارے میں اکثر و بیشتر کئی شکایات منظر عام پر آتی ہیں ۔
اور بعض شکایتیں تقررات سے متعلق ہوتی ہیں ۔ اگر کسی ذی حس انسان کو بتایا جائے کہ فلاں لڑکی نے سال 2006 میں اساتذہ کے تقررات کے لیے منعقدہ ڈی ایس سی میں منتخب ہونے اور جنرل رینک 21 حاصل کرنے پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے دفتر سے احکامات تقررات حاصل بھی کئے اور سرکاری اسکول میں بحیثیت انگلش ٹیچر ایک دن کام بھی کیا اس کے بعد محکمہ تعلیمات کی ایک اعلیٰ عہدہ دار اور دیگر عہدیداروں نے ان کے تقرر کو اپنی جانب سے رد کردیا ۔ جس کے خلاف ٹریبونل اور ہائی کورٹ میں رجوع ہونے پر محکمہ تعلیمات پر برہمی ظاہر کرتے ہوئے اس لڑکی کے فوری احکامات تقررات جاری کرنے کی ہدایت دی ۔ عدالت کی اس ہدایت کے باوجود وہ اب تک اسکول جائن نہ کرسکی ۔ انگریزی ٹیچر کے لیے درکار تمام شرائط کی تکمیل کے باوجود وہ 2006 سے یعنی 9 سال سے حصول انصاف کے لیے اِدھر اُدھر بھاگ رہی ہے ۔ اعلیٰ حکام سے رجوع ہورہی ہے ۔ انصاف کا مطالبہ کررہی ہے لیکن اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا جارہا ہے ۔ اس لڑکی کے ساتھ روا رکھی جانے والی نا انصافی کی داستان سن کر کوئی بھی ذی حس انسان یہی کہے گا کہ اس لڑکی کے ساتھ محکمہ تعلیمات کے عہدیدار تعصب برت رہے ہیں ۔ مسلم ہونے کے باعث اسے اس کے حق سے محروم کیا جارہا ہے یا پھر وہ شائد ایک بہت بڑی رقم رشوت کے طور پر حاصل کرتے ہوئے اپنی بلیک منی میں اضافہ کے خواہاں ہیں ۔ قارئین محکمہ تعلیمات کی اس نا انصافی کا شکار خاتون سیدہ فرح شاہ نے 9 سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود ہمت نہیں ہاری ۔ وہ بدعنوان اور متعصب عہدیداروں کے خلاف ایک چٹان کی طرح کھڑی ہے ۔ سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ اسے عدلیہ کا بھر پور تعاون حاصل ہے ۔
عدلیہ نے اس کے ساتھ ہر بار انصاف کیا ہے لیکن محکمہ تعلیمات کے جانبدار اور متعصب وراشی عہدیدار اسے انصاف سے محروم کرنے میں مصروف ہیں کہتے ہیں کہ خاتون عہدہ دار رحمدل ہوتی ہیں لیکن تعصب اور رشوت خوری میں آج کل خاتون عہدہ دار بھی کسی سے کم نہیں ۔ سیدہ فرح شاہ کا راستہ روکنے والا کوئی مرد عہدیدار نہیں تھا بلکہ اس وقت کی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ملماں دیوی تھیں جنہوں نے عجیب و غریب اور ناقابل قبول حیلے بہانے کرتے ہوئے سیدہ فرح شاہ کے تقرر میں رکاوٹ پیدا کی ۔ واضح رہے کہ ڈائرکٹر آف اسکول ایجوکیشن نے 2006 میں اساتذہ کے تقررات کا اعلامیہ جاری کیا تھا اور جس میں دی گئی مطلوبہ قابلیت کی بنیاد پر سیدہ فرح شاہ نے نہ صرف ڈی ایس سی امتحان لکھا بلکہ 21 واں ( جنرل رینک ) حاصل کیا ۔ اس اعلامیہ میں ایس اے ( انگریزی ) اردو میڈیم کی جملہ 33 جائیدادیں بتائی گئی تھیں ۔ 23 جولائی 2008 کو DEO کا ایک مکتوب حاصل ہوا جس میں فرح کو ہدایت دی گئی کہ وہ دفتر ڈی ای او میں اپنے اسناد پیش کرتے ہوئے تقرر نامہ حاصل کرے لیکن جب اسناد پیش کئے گئے تب اس وقت کی ڈی ای او ملماں دیوی Mallama Devi نے یہ کہہ کر تقرر نامہ حوالے کرنے سے انکار کردیا کہ آپ BEd نہیں ہیں ۔ اس خاتون عہدہ دار نے PG DELT کو ماننے سے ہی انکار کردیا حالانکہ اعلامیہ میں اس کا حوالہ دیا گیا تھا ۔ سیدہ فرح شاہ کی تعلیمی قابلیت ایم اے ( انگلش ) اور PG DELT ہے ۔ عہدیداروں سے بار بار رجوع ہونے اور بار بار انکار کے باعث 2009 میں مجبوراً اس خاتون کو اے پی اڈمنسٹریٹیو ٹریبونل سے رجوع ہونا پڑا ۔
جس نے OA.No/0334/2009 پر عبوری احکامات جاری کئے جس پر کمشنر اور ڈی ایس سی سے اس خاتون کو پوسٹنگ آرڈرس دئیے جانے کی ہدایت آئی ۔ چنانچہ 7 جولائی 2010 کو DEO کی جانب سے آرڈرس کی اجرائی عمل میں آئی اور سیدہ فرح شاہ کی پوسٹنگ گلبل گوڑہ گورنمنٹ ہائی اسکول ( بہادر پورہ زون ) میں عمل میں آئی ۔ 8 جولائی 2010 کو وہ اپنے احکامات تقرر اور جائننگ رپورٹ لے کر اسکول میں ڈیوٹی جائن کرلی لیکن دوسرے ہی دن اسکول سے انہیں DEO آفس بھیجا گیا ۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ یہ احکامات گرین انک میں نہیں ہیں ۔ بہر حال ڈی او آفس کے چکر کاٹنے کے بعد وہ ہائی کورٹ سے رجوع ہوئیں اور ہائی کورٹ نے بھی 21 اکٹوبر 2013 کو ان کے حق میں فیصلہ دیا ۔ 5 فروری 2015 کو ڈی ای او سبا ریڈی نے انتہائی تعصب اور غیر پیشہ وارانہ انداز میں قدم اٹھاتے ہوئے دوسرے غیر مناسب کیس سے اس کیس کو بھی جوڑ دیا جب کہ ٹریبونل اور ہائی کورٹ نے واضح طور پر اس مسلم خاتون کو احکامات تقررات حوالے کرنے کی ہدایات دی تھیں ۔ بہر حال اب دیکھنا ہے کہ عدالت کے احکام کا احترام کیا جاتا ہے یا پھر عہدہ داروں کا تعصب کامیاب ہوتا ہے۔۔