ڈینگو مچھر احتیاط ضروری

ہندوستان بھر میں صحت عامہ اور صاف صفائی خاص کر وزیراعظم نریندر مودی کی سوچھ بھارت مہم کے باوجود عوام کی صحت پر مضر اثرات والی وباء پھیلی ہوئی ہے تو یہ تشویشناک بات ہے۔ جھارکھنڈ میں ہر سال ہزاروں بچے دماغی بخار سے مرتے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں ڈینگو بخار نے معصوم بچوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے۔ دہلی کے عوام نے عام آدمی پارٹی کو اس لئے ووٹ دیا تھا کہ اس کی حکومت میں عوام الناس کو بہتر حکمرانی ملے گی۔ رشوت سے پاک نظم و نسق کام کرے گا لیکن ڈینگو بخار سے اس عام آدمی کے سامنے سیاسی پارٹی کی کارکردگی صفر ظاہر ہونے لگی۔ رشوت کی وجہ سے ہی آج سرکاری دواخانوں اور خانگی ہاسپٹلس میں حفظان صحت کے تمام طبی اصول بالائے طاق رکھے جارہے ہیں۔

شہر میں دواخانوں کے رویہ نے ایک معصوم کی جان لے لی ہے جو ڈینگو سے متاثر تھا۔ ایک ہفتہ قبل ہی 7 سالہ لڑکا اویناش بھی ڈینگو سے فوت ہوا تھا جس کے علاج کے لئے شہر کے پانچ دواخانوں نے شریک کرلینے سے انکار کردیا تھا۔ اب تازہ کیس میں دہلی کے سرینواس پوری علاقہ کا 6 سالہ امان بھی ڈینگو کی وجہ سے فوت ہوگیا۔ حالیہ دنوں میں ڈینگو سے مرنے والوں کی تعداد 12 ہوگئی ہے۔ ملک کے دارالحکومت میں ہی عوام کی صحت کے تعلق سے لاپرواہی برتی جارہی ہے تو دیگر حصوں خاص کر دیہاتوں میں عوام کی صحت کے بارے میں کسی کو دھیان ہی نہیں ہوگا۔ سال 2015ء کی ڈینگو وباء کو گزشتہ پانچ سال کے دوران پھوٹ پڑنے والی وباء سے زیادہ خطرناک مانا جارہا ہے۔ اب تک 1800 کیس پہلے ہی درج کرلئے گئے ہیں۔ ملک بھر میں خطرناک جان لیوا مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے حکومت نے اب تک کچھ کارروائی نہیں کی ہے۔ ڈینگو مچھروں کی افزائش کو روکنا ضروری ہے۔ اگرچیکہ دہلی حکومت نے سرکاری دواخانوں میں مزید 1000 بستروں کا حکم دیا ہے اور طبی عملہ کی چھٹیوں کو بھی منسوخ کردیا ہے۔ ڈینگو کے مچھر تاریک مقامات پر پیدا ہوتے ہیں جہاں پانی جمع رہتا ہے اور گندگی کی وجہ سے یہ مچھر اپنے لئے جگہ بنالیتے ہیں۔ ان علاقوں کی صفائی اور مچھرکش ادویات کا بروقت چھڑکاؤ ہی احتیاطی اقدامات کا حصہ ہوگا۔ ڈینگو مچھر دن بھر اپنے شکار کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ عوام احتیاطی اقدام کریں۔ یہ مچھر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت سب سے زیادہ متحرک رہتا ہے۔

ملک میں اب تک ڈینگو سے بچاؤ کا کوئی ٹیکہ ایجاد نہیں کیا گیا۔ اس لئے عوام کو ہی اپنے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے سارے جسم کو کپڑے سے ڈھانک لینا چاہئے تاکہ ڈینگو مچھر ان پر حملہ نہ کرسکے۔ ڈینگو مچھروں کو روکنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو بھی اپنے اطراف و اکناف کے علاقوں کو صاف ستھرا رکھنے پر دھیان دینا ہوگا۔ ڈینگو کے مچھر چار قسم کے ہوتے ہیں جس میں دو قسم کے مچھر جان لیوا ثابت ہورہے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عوام کو ڈینگو سے بچانے کے لئے فوری اقدامات کرے۔ اس سال ڈینگو کا اثر گزشتہ کے مقابل زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کے پاس بروقت علاج فراہم کرنے کا نسخہ نہیں ہے۔ اس طرح کی سہولت نہ ہونے سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک بچے کی موت کے بعد ہی ماں باپ نے خودکشی کرلی۔ یہ واقعہ بظاہر صدمہ خیز ہے، اس خودکشی کے پیچھے ماں باپ کی بے بسی اور صحت عامہ کے تعلق سے حکومت کی لاپرواہی واضح نظر آرہی ہے۔ ایک اور بچے کی موت کے بعد والدین نے ڈاکٹروں پر لاپرواہی کا الزام عائد کیا ہے۔ حکومت کو ایسی شکایات کا جائزہ لے کر فوری کارروائی کرنی چاہئے۔ خاص کر ایسے خانگی دواخانوں کے انتظامیہ کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جو ڈینگو سے متاثرہ مریضوں کو شریک کرنے اور ان کا علاج کرنے سے انکار کررہے ہیں یا ایسے مریضوں کے والدین سے زائد فیس رشوت کی شکل میں وصول کررہے ہیں۔ سرکاری اور خانگی دواخانوں کے بدعنوان عملہ کے خلاف کارروائی سے ہی عوام کی صحت کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ ڈینگو مچھر سے پھیلنے والے مرض کا سب سے پہلے 2007ء میں ملائیشیا کی ایک ریاست میں پتہ چلایا گیا تھا لیکن اب تک اس کے انسداد کے لئے ٹیکہ ایجاد نہیں کیا گیا۔ حکومت ہر سال محکمہ صحت کے لئے خاطر خواہ فنڈس مختص کرتی ہے لیکن بدعنوانیوں کی وجہ سے صحت عامہ کا نازک مسئلہ پس پشت ڈالا جاتا ہے۔ مودی حکومت یا عام آدمی پارٹی جیسی سیاسی طاقتوں کو انتخابات کے وقت بدعنوانیوں کے خاتمہ کی فکر رہتی ہے۔ اقتدار ملنے کے بعد یہ بدعنوانی بھی ان کی کارکردگی کا حصہ بن جاتی ہے تو عوام کے لئے سب سے بڑا دھوکہ اور فریب ہے۔