ڈونرس کانفرنس افغانستان کی معیشت کو مستحکم کرنے کی جانب پیشرفت

افغانستان کیلئے چار سال تک سالانہ 4 بلین ڈالرس کی امداد کا نشانہ

برسلز۔ 5 اکتوبر (سیاست ڈاٹ کام) افغانستان کے قائدین اور دیگر 70 ممالک کے عہدیداران آج برسلز میں جمع ہوئے ہیں جہاں وہ مالی بحران سے دوچار اور طاقتور طالبان شورش پسندی سے دوچار افغانستان کی مالی امداد کرنے کے لئے کوئی اہم فیصلہ کریں گے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان۔ کی۔مون نے اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ افغانستان کے لئے بین الاقوامی برادری نے ایک حوصلہ افزاء پیغام دیا ہے۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغان قائدین برسوں سے جنگ زدہ پریشان حال عوام کی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلیاں لانے کے لئے متعدد موثر اصلاحات اور ترقیاتی اقدامات کا منصوبہ بنارہے ہیں، تاہم 15 سال کی طویل جنگ کے بعد جہاں عطیہ کنندگان میں بھی ایک قسم کا لااُبالی پن نظر آرہا ہے۔ وہیں یوروپی یونین کے عہدیداران نے اس اہم اجلاس کے آغاز سے قبل کہا تھا کہ افغانستان کے لئے چار سال تک ہر سال 4 بلین ڈالرس جمع کرنے کے نشانہ کو حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔ قبل ازیں ٹوکیو میں 2012ء میں منعقدہ ڈونرس کانفرنس کے دوران ترقیاتی شعبہ میں 4 بلین ڈالرس سالانہ سبسڈیز جمع ہوئی تھی۔ یوروپی یونین کی بیرونی پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بتایا کہ یوروپی یونین 1.2 یوروز دے سکتا ہے

اور یہ توقع کرتا ہے کہ ہمارے دیگر شراکت دار بھی اتنی ہی رقم کا تعاون کریں گے۔ انہوں نے ڈونرس کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اب افغانستان کی دامے، درمے اور سخنے امداد کے لئے نئے سِرے سے کام کرنا ہوگا۔ قبل ازیں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا کہ یوروپی یونین افغانستان کو اس شرط کے ساتھ امداد دے رہا ہے کہ وہ افغانستان سے یوروپ فرار ہونے والوں کو افغانستان میں بازآبادکرے اور انہیں واپس بلائے۔ انہوں نے کہا کہ ترقیاتی پراجیکٹس کے لئے یوروپی یونین کی امداد اور تارکین وطن و پناہ گزینوں کے لئے پالیسیوں میں کوئی تال میل نہیں ہے۔ ان دونوں پالیسیوں کو آپس میں خلط ملط نہیں کیا جانا چاہئے۔ دوسری طرف افغانستان کے وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی نے کہا کہ برسلز کانفرنس کے ذریعہ ان کی (افغانی) حکومت کو اپنے اصلاحات بلیو پرنٹ پیش کرنے کا ایک موقع ہاتھ آیا ہے۔ انہوں نے اپنے اس وعدہ کو دہرایا کہ وہ ملک میں بدعنوانی کے خلاف اور خواتین کے حقوق کے لئے اپنی لڑائی جاری رکھنے کے پابند ہیں۔

حالانکہ ہم نے کئی کارنامے انجام دیئے ہیں اور کئی نشانوں کی تکمیل کی ہے۔ اس کے باوجود بھی ہمیں مزید کئی چیلنجس سے نمٹنا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ افغانستان گزشتہ دو دہوں سے شورش پسندی کا شکار ہے۔ امریکہ اور ناٹو افواج کی امریکہ میں موجودگی جس وقت عروج پر تھی، اس وقت افغانستان میں کئی بلین ڈالرس خرچ کئے گئے اور اس طرح بھرم قائم رکھنے کیلئے ملک کی معیشت کو مستحکم بتانے کی دو ہندسی جعلی تصویر پیش کی گئی تاہم 2014ء میں جب امریکہ اور ناٹو کی افواج نے وہاں سے تخلیہ شروع کیا تو کئی بین الاقوامی ایجنسیوں اور امدادی ورکرس نے بھی وہاں کام کرنا مناسب نہیں سمجھا یا پھر اپنے امدادی کاموں کا سلسلہ مسدود کردیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ افغانستان کی معیشت ایک بار پھر انحطاط پذیر ہوگئی۔ عہدیداران کا کہنا ہے کہ افغانستان کی نصف آبادی بیروزگار ہے۔ ناقص سیکیورٹی حالات کی وجہ سے بیرونی کمپنیاں اہم شعبوں جیسے مائننگ اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے پس و پیش کا شکار ہیں جس کے بعد ملک کا نوجوان طبقہ روزگار کی تلاش میں یوروپ کا رخ کرنے پر مجبور ہے۔