بگڑے ہوئے حالات بنانا ہوگا
بے جرم کو اِنصاف دلانا ہوگا
ڈونالڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی
امریکی صدارتی امیدوار ری پبلیکن پارٹی لیڈر ڈونالڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی ان دنوں دنیا بھر کے قائدین خاص کر ڈیموکریٹک امیدوار ہلاری کلنٹن کے لئے موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ ٹرمپ کی وجہ سے امریکہ کو آنے والے برسوں میں خارجی سطح پر مختلف حالات سے گذرنا پڑے گا۔ ٹرمپ نے ناٹو افواج کو واپس طلب کرنے سے لے کر تارکین وطن، آؤٹ سورسنگ، ہندوستانیوں اور مسلمانوں کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے، اس سے ان کے خفیہ منصوبوں کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی کٹر صدارتی حریف ہلاری کلنٹن نے امریکہ کی خارجہ پالیسی پر ری پبلیکن امیدوار کی رائے کو تشویشناک قرار دیا ہے۔ امریکہ میں گزشتہ چندہ ماہ سے یہ سیاسی بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار پر آنے کے بعد امریکہ میں کئی ایمیگرینٹس کو نشانہ بنایا جائے گا۔ ان میں ہندوستانیوں کی خاصی تعداد ہے۔ ٹرمپ نے امریکی سرحدوں کو بند کردینے اور امریکہ میں مقیم مسلمانوں کو نکال دینے کی بھی پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ ان کے بیانات اور تقاریر میں دراصل سچائی کا عنصر ہرگز پایا نہیں جاتا۔ پھر بھی امریکیوں کی اکثریت کا احساس ہے کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ آئندہ صدر منتخب ہوتے ہیں تو وہ امیگرینٹس کے خلاف دشمنی کی فضاء پیدا کریں گے۔ ایک ایسی دشمنی جس میں امیگرنٹس کو سانس لینا محال ہوجائے گا۔ ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کے منظر عام پر آنے سے قبل ہندوستانیوں یا ہندوستانی امریکیوں نے ٹرمپ کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اب یہ لوگ فوری طور پر ٹرمپ کی ریالی سے دور ہوتے جارہے ہیں، اس کی وجہ سے ری پبلیکن پارٹی کے لئے مہم چلانے والوں کو تشویش ہورہی ہے کہ ٹرمپ کی کامیابی کے امکانات پر اثر پڑے گا۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں سب سے شدید نشانہ ہندوستان اور چین بنے ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکہ سے فائدہ اٹھانے والے ملکوں میں چین اور ہندوستان سب سے آگے ہیں جبکہ امریکہ خود ساری دنیا میں اپنی ساکھ کھوتے جارہا ہے، تاہم بعض مواقع پر ٹرمپ نے ہندوستان کی تعریف بھی کی ہے۔ امریکہ کے کسی بھی صدارتی امیدوار کے لئے ضروری ہے کہ اس کی خارجہ پالیسی واضح ہوجائے۔ اب مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ٹرمپ نے اپنی خارجہ پالیسی کیا بنائی ہے مگر سوال یہ ہے کہ انہوں نے امریکہ کو پھر سے عظیم بنانے کا وعدہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ امریکہ میں زیادہ سے زیادہ روزگار ، جنگوں کی پالیسیوں کو کم سے کم بنانا ، مضبوط معیشت پر توجہ دینا، محفوظ سرحدیں ہونا ، قانونی طور پر امریکہ آنے والوں کے لئے بہتر سے بہتر زندگی دی جائے۔ امریکہ کو ’’گریٹ ملک‘‘ بنانے کی پالیسی یہی ہوسکتی ہے مگر ٹرمپ کی پالیسی میں ہی تضاد دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف وہ امریکہ کو پہلے سے زیادہ عظیم بنانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف خارجہ پالیسی پر تحفظاتِ ذہنی رکھتے ہیں۔ امریکہ ماباقی دنیا سے کٹ کر ایک عظیم ملک کے طور پر اُبھر نہیں سکتا اور ٹرمپ نے امریکہ کو مابقی دنیا سے منقطع کرلینے کی پالیسی بنائی ہے تو پھر وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ ہندوستانی نژاد امریکیوں نے پہلے تو ٹرمپ کو ایک سمجھدار لیڈر جانا، بعدازاں ان کی پالیسیوں کے انکشاف کے بعد ان کی حمایت کرنے والے ہندوستانی نژاد امریکیوں کو مایوسی ہوئی۔ امریکہ کی سیاست میں روایتی طور پر ہندوستان یا برصغیر سے آکر آباد ہونے والے زیادہ تر لوگ ڈیموکریٹس کا ساتھ دیتے ہیں لیکن بعض اوقات ان ہندوستانی نژاد امریکیوں یا برصغیر کے باشندوں کا جھکاؤ امریکی صدارتی امیدواروں کی شخصیت کی طرف ہوتا ہے۔ جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کا تعلق ہے، ان کے تعلق سے اکثریت کی رائے یہ ہے کہ ٹرمپ میں صدر امریکہ بننے کی خوبیاں نہیں ہیں۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی اُمور کا معاملہ ہو اس کے لئے ایک مضبوط فیصلہ ساز لیڈر کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹرمپ میں فیصلہ سازی کی قوت بہت کم دکھائی دے رہی ہے۔ خارجہ پالیسی میں ان کی تضاد بیانی بھی اس کا ایک ثبوت ہے۔ اگر اتفاق سے ٹرمپ کو صدارتی ذمہ داری مل جاتی ہے تو پھر دنیا میں امریکی اثر و رسوخ اور طاقت کا ویژن بے سمتی کا شکار یا بے ربط ہوجائے گا۔