ڈونالڈ ٹرمپ کا اسرائیل کے ساتھ مزید مستحکم تعلقات اور دولت اسلامیہ کے خاتمہ پر زور

دفاعی، انٹلیجنس اور سکیوریٹی شعبوں پر باہمی تعاون، نتن یاہو کو فروری میں امریکہ کے دورہ کی دعوت
واشنگٹن۔23 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) جیسا کہ توقع کی جارہی تھی کہ امریکہ اپنے سب سے قریبی حلیف اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو مزید خوشگوار بنانے کی جانب پیشرفت کرچکا ہے جیساکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد صدر موصوف کا وزیراعظم اسرائیل بنجامن نتن یاہو کو وائٹ ہائوس مدعو کرتے ہوئے بات چیت کی جانے والی ہے۔ قبل ازیں دونوں قائدین کے درمیان فون پر بھی بات چیت ہوئی تھی جہاں خصوصی طورپر مشرق وسطی کے استحکام اور سکیوریٹی کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔ امریکی صدر نے اسرائیل کے ساتھ فوجی، انٹلیجنس اور سکیوریٹی کے شعبوں میں جس شراکت داری کے لیے اعتماد کا مظاہرہ کیا ہے، دونوں ہی ممالک ان تمام شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید مستحکم کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ وائٹ ہائوس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ٹرمپ اور نتن یاہو نے یہ عزم کیا ہے کہ متعدد علاقائی معاملات اور تنازعات کی یکسوئی دونوں ممالک باہمی مشاورت سے کریں گے۔ خصوصی طور پر ایران کی جانب سے خطرہ ہے۔ اس نے اسرائیل کو خاصا تشویش میں مبتلا کررکھا ہے۔ فون پر بات چیت کے دوران ٹرمپ نے یاہو کو وائٹ ہائوس کا دورہ کرنے کی دعوت دی اور اس بات پر زور دیا کہ اگر آئندہ ماہ فروری میں یہ ملاقات ہوجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ٹرمپ نے کہا کہ ان کا انتظامیہ دولت اسلامیہ کی بیخ کنی پر اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دے گا۔ اس دہشت گرد تنظیم سے جتنا جلد چھٹکارہ مل سکے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ کے علاوہ دیگر انتہاپسند اسلامی تنظیموں کا قلع قمع بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان بات چیت راست طور پر دونوں ممالک کے درمیان ہوگی اور امریکہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے اسرائیل کے شانہ بشانہ موجود ہوگا البتہ بات چیت میں ثالثی کا رول ادا نہیں کرے گا۔ دوسری طرف نتن یاہو نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے اور ان کے دفتر کے مطابق ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کو گرمجوشانہ قرار دیا اور کہا کہ وہ (یاہو) خود بھی نئے امریکی انتظامیہ کے ساتھ شانہ بشانہ کام کرنے بے چین ہیں۔ یاد رہے کہ 20 جنوری کو ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ امریکہ کے 45 ویں صدر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد دونوں قائدین کی یہ پہلی بات چیت تھی جبکہ صرف ایک روز قبل انہوں نے میکسیکو اور کینیڈا کے قائدین سے بھی فون پر بات کی تھی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما اور ان کی انتظامیہ کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات اس وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب اقوام متحدہ کی ایک قرارداد میں اسرائیل کی جانب سے مشرقی یروشلم میں نوآبادیات کو غیرقانونی قرار دیا گیا تھا اور اس اجلاس سے امریکہ غیر حاضر تھا۔ ٹرمپ نے تو اپنی انتخابی ریالیوں میں یہ تک کہہ دیا تھا کہ اگر وہ صدر بن گئے تو امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کردیں گے لیکن وائٹ ہائوس کی جانب سے جاری کئے گئے بیان میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا سفارت خانہ یروشلم میں واقع نہیں ہے جس کے بارے میں فلسطینیوں کا دعوی ہے کہ وہ فلسطین کا دارالخلافہ ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ ٹرمپ اپنی حلف برداری کے دوران (جو بین مذہبی اجتماع پر بھی مشتمل رہی) جب تلاوت قرآن کی سماعت کا موقع ملا تو خاموشی سے سماعت کرتے رہے۔ حالانکہ موصوف تعظیمی انداز میں نہیں بیٹھے تھے لیکن انہوں نے اپنی اہلیہ اور خاتون اول میلانیا کو جو تلاوت قرآن شروع ہوتے ہی اٹھ کر جانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں، ٹرمپ نے انہیں دوبارہ نشست پر ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا۔ اس دوران بھی خاتون اول کسی رسالہ کی ورق گردانی میں مصروف رہیں جیسے قرآن کی سماعت ان کو بے انتہا گراں گزر رہی ہو تاہم ٹرمپ نے خاموشی کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت سماعت کی۔