ڈراؤنی فلموں کے ڈائرکٹر تلسی رامسے اب نہیں رہے

ڈراؤنی فلموں کے ہدایتکار تلسی رامسے کا پچھلے دنوں 74 سال کی عمر میں ممبئی کے ایک ہاسپٹل میں قلب پر حملہ کے باعث انتقال ہوگیا۔ وہ 29 جولائی 1944 کو کراچی پاکستان میں ایف یو رامسے کے گھر پیدا ہوئے۔ یہ 7 بھائی ہیں کمار رامسے، شیام رامسے، کیشو رامسے۔ ارجن رامسے، گنگو رامسے، کرن رامسے ۔ انہوں نے 1972 میں ممبئی کے اندھیری علاقہ میں تلسی رامسے پروڈکشن کا قیام عمل میں لایا اور اس بینر پر پہلی فلم ’’دوگز زمین کے نیچے‘‘، ’’اندھیرا‘‘، ’’دروازہ‘‘، ’’اور کون‘‘، ’’گیسٹ ہاوز‘‘، ’’ثبوت‘‘، ’’دہشت‘‘، ’’سناٹا‘‘، ’’ہوٹل‘‘، ’’گھنگرو کی آواز‘‘، ’’پرانا مندر‘‘، ’’تھری ڈی سامری‘‘، ’’ٹیلفون‘‘، تہ خانہ‘‘، ’’ویرانا‘‘، ’’پرانی حویلی‘‘، ’’بند دروازہ‘‘، ’’عجوبہ قدرت کا‘‘، ’’انسپکٹر دھنش‘‘، ’’پولیس میتھو دادا‘‘ اور 1993 میں آخری فلم ’’مہاکال‘‘ بنائی اور اسی سال انہوں نے زی ہارر شو بنایا۔ تلسی رامسے 1980 سے نوے تک ڈروانی فلمیں بناتے رہے۔ اس طرح تلسی رامسے کے انتقال کے ساتھ ہی ڈراؤنی فلموں کے ایک باب کا اختتام ہوگیا، لیکن ڈراؤنی فلمیں بھی چونکہ ہماری ہندی فلمی صنعت کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس لئے ہم یہاں اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ڈر اور خوف انسانی فطرت کا ایک حصہ ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر ہمارے ہندی فلمسازوں نے جاسوسی فلموں کی ڈگر پر ڈراؤنی فلمیں بنانی شروع کیں۔ ہندی فلم بینوں کو ڈرانے کا ٹھیکہ سب سے پہلے راج کھوسلہ نے لیا۔ ’’وہ کون تھی‘‘، ’’انیتا‘‘ اور ’’میرا سایہ‘‘ جیسی فلمیں انہوں نے بھولے بھالے فلمبینوں کو ڈرانے کے لئے ہی بنائی تھیں اور وہ اپنے اس مقصد میں پوری طرح کامیاب بھی رہے۔ اس کے بعد فلمبینوں کو ڈرانے کا یہی ٹھیکہ رامسے برادرس کے تلسی رامسے نے مستقل طور پر اپنے ذمہ لے لیا اور انہوں نے جاسوسی کہانیوں کے ذریعہ فلم میں ڈراؤنا ماحول پیدا کرکے تماشائیوں کو بری طرح ڈرانا شروع کیا جیسے سناٹے میں مجرم کے چلنے کی آواز، کسی قبرستان کے پھاٹک کا خود بخود چرچرا کر کھل جانا، کالی بلی کا اچانک کود پڑنا، کسی غیر متوقع شخص کا اچانک سامنے آجانا وغیرہ لیکن ڈرانے کے اس زمرے میں بیک گراؤنڈ میوزک کا سب سے زیادہ تعاون ہوتا ہے۔ مثلاً ’’بیس سال بعد‘‘ میں پیچھے سے آنے والے پنجے پر دی گئی میوزک اتنی بھیانک تھی کہ بڑے بڑے دل گردے والے بھی کرسیوں پر سے اچھل پڑتے تھے۔ رامسے نے لوگوں کو ڈرانے کے لئے مردہ لوگوں کو چلتے پھرتے دکھانا یا ان کو خون میں لتھڑا ہوا زندہ دکھانا فلمبینوں کو ڈرانے کے لئے کافی ہوتا ہے، لیکن ابتدائی چند فلموں کو چھوڑکر رامسے نے اپنی فلموں میں فلمبینوں کو ڈرانا تو درکنار بزنس میں بھی فلاپ رہے۔ اس کی وجہ تھی بے سر پیر کی کہانیاں اور پھر ہندی شائقین زیادہ دنوں تک بیوقوف نہیں بن سکتے کیونکہ وہ اس حقیقت سے خوب آشنا ہوچکے تھے کہ پردے پر جو بھوت وہ دیکھ رہے ہیں وہ کسی اداکار پر کیا گیا بھوت کا میک اپ ہے کیونکہ رامسے برادرس کی بعض فلموں کے بھوت نئے ماڈل کے فل بوٹ پہنے ہوئے نظر آتے تھے، ان کے جسم پر چپکی ہوئی کپڑے کی دھجیاں صاف نظر آتی ہیں یہی نہیں ان کے چلنے پھرنے کا انداز بھی یہ ظاہر نہیں کرتا کہ وہ کوئی شیطانی مخلوق ہیں لیکن رامسے برادرس کی ہمت کی داد دینا چاہئے کہ وہ ہندی فلمبینوں کو مضحکہ خیز بھوتوں سے ڈرانے سے باز نہیں آئے۔ ڈراؤنی فلمیں اپنی کامیابی کے لئے ٹھوس کہانی اور ہدایتکار کی چابک دستی مانگتی ہیں۔ اگر فلم کی کہانی کمزور بھی ہوتی ہے تو ہوشیار ہدایتکار اپنی عمدہ ہدایتکاری سے فلمبینوں کا دھیان فلم کی خامیوں پر جانے نہیں دیتا ۔ فلم ’’جانی دشمن‘‘ اسی طرح کی فلم تھی جبکہ فلم کی کہانی میں بہت جھول تھے ڈراؤنی فلموں کی کامیابی کا دوسرا راز میک اپ اور فلم کے ڈراؤنے مناظر ہوتے ہیں۔ فلم میں اگر کوئی بھوت دکھایا گیا ہے تو اس کا میک اپ حقیقت کے قریب ہونا چاہئے۔ فلم ’’چیخ‘‘ کے بھوت جیسا میک اپ نہیں ہونا چاہئے جو پہلی ہی نظر میں بھوت کے بجائے پلاسٹر چڑھا ہوا کوئی زخمی معلوم ہوتا تھا۔ بہرحال اب جدید تکنیک اور گرافکس نے کمال کرنا شروع کردیا ہے لیکن رامسے برادرس کے بھوت لوگوں کو حقیقت سے قریب دکھائی دیتے تھے۔