ڈائریکٹر جنرل پولیس کانفرنس

ہے ان کا اثر زہر ہلاہل کے مماثل
باتیں ہیں بہت میٹھی مگر ان کے لبوں پر
ڈائریکٹر جنرل پولیس کانفرنس
وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی حکومت میں پولیس کو ایک اِسمارٹ شعبہ بنانے کی پرزور وکالت کے ساتھ گوہاٹی میں منعقدہ ڈائریکٹرس جنرل پولیس و آئی جی پیز کی کانفرنس میں شہید پولیس ملازمین کو خراج پیش کیا اور پولیس ملازمین کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے اعزاز دینے کی بات کی، لیکن آسام کے ہی ایک مسلم پولیس عہدیدار کی خدمات کو فراموش کردیا گیا۔ 1962ء میں آسام کے انسپکٹر جنرل پولیس کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے امداد علی نے ہندوستان پر چین کے حملے کے دوران اپنے فرائض کی انجام دہی کے ذریعہ لااینڈ آرڈر کی برقراری کو یقینی بنایا تھا۔ آسام پولیس میں ان کی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں تھیں، لیکن گوہاٹی میں منعقدہ اس پولیس کانفرنس میں ریاستی حکومت اور مرکز نے اس مسلم عہدیدار کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی نیت آشکار کردی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اپنی تقریر کے دوران پولیس عملے کی فلاح و بہبود کی بات کی، وہیں ان کے ارکان خاندان کو بھی ترقی دینے کی ضرورت ظاہر کی، لیکن انھیں آسام پولیس کے اس مسلم عہدیدار کی خدمات سے واقف نہیں کروایا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ڈائریکٹر جنرل پولیس و آئی جی پیز کی اس کانفرنس میں جہاں دیگر عہدیداروں کی خدمات کو یاد کیا گیا، وہیں آئی جی پی امداد علی کو بھی یاد کیا جاتا۔ انھوں نے آسام پولیس میں ایک ایسے نازک وقت میں خدمت انجام دی تھی، جب ہندوستان کو چین کی جارحیت کا سامنا تھا۔ امپریل پولیس سرویس میں شامل ہونے والے وہ پہلے اور آخری آسامی شہری تھے۔ 1937ء میں انھیں امپریل پولیس سرویس کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کا زمانہ تھا، اُس وقت سرحدوں پر کشیدگی کا ماحول تھا۔ ایسے میں حکومت کو ان علاقوں میں صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے قابل اور تجربہ کار پولیس عہدیداروں کی ضرورت تھی۔ پولیس سرویس میں شامل ہونے کے سات ماہ کے اندر ہی امداد علی کو پولیس آفیسر کی حیثیت سے ترقی دے کر برما سے ہندوستانی پناہ گزینوں کے تخلیہ کی نگرانی کے لئے مامور کیا گیا تھا۔ ناگا ہلز میں بھی انھوں نے ہندوستان کی آزادی کے وقت 1947ء میں پولیس کمشنر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں۔ ان کی بیش بہا پولیس خدمات کو خراج پیش کرنے کے لئے گوہاٹی میں منعقدہ پولیس کانفرنس ایک شاندار موقع تھا، مگر پولیس نظم و نسق اور مرکزی و ریاستی حکومتوں نے مسلم پولیس عہدیدار کو یکسر فراموش کردیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر کے دوران اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ملک کی ہر ریاست میں ایک پولیس اکیڈیمی ہے جہاں نئے پولیس ملازمین کی بھرتیاں عمل میں آتی ہیں اور پولیس تربیت دی جاتی ہے ۔ اس بات کو لازمی کیا جانا چاہئے کہ ان کے نصاب میں ان پولیس ملازمین اور عملہ کی خدمات و حالاتِ زندگی کو شامل کیا جائے۔ وزیراعظم کی اس تجویز کے عین مطابق پولیس میں خدمات انجام دینے والے بہادر مسلم پولیس عہدیداروں کو فراموش نہیں کیا جانا چاہئے۔ اِنصاف و دیانت داری کا تقاضہ یہی ہے کہ ملک کی خدمت کرنے والوں کی ان کے مذہب کی بنیاد پر شناخت نہیں رکھنی چاہئے، لیکن گوہاٹی میں پولیس کانفرنس میں اس طرح کی تعصب پسندی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اس سارے پس منظر میں یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومت نے آسام کے بہادر مسلم پولیس عہدیدار کی خدمات کو نظر انداز کیوں کیا؟ کیا حکومت کے پاس اپنی کوتاہی و تنگ نظری کے اعتراف کی اتنی طاقت نہیں ہے کہ اس نے قصداً پولیس کانفرنس میں ریاستی سپوتوں کو فراموش کردیا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی کا ہر روز ایک نیا لکچر سماعت کرنے والے ہندوستانیوں کو مودی کی تقریر ایک گاؤں کے اسکول ماسٹر کا سبق ہی معلوم ہورہی ہے۔ اب انھوں نے پولیس کو اِسمارٹ بنانے کی وکالت کی ہے جب کہ ہندوستان بھر میں پولیس کے علاقائی سطح پر مختلف مسائل ہیں۔ پولیس کو درپیش مشکلات کو دُور کرنے پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ اِسمارٹ پولیسنگ کا مرحلہ تب ہی قابل عمل ہوگا، جب پولیس کے بنیادی مسائل کی یکسوئی کی جائے۔ انھیں داخلی سلامتی سے نمٹنے کے لئے مؤثر فورس بنانے کے لئے مطلوبہ تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ ریاستی یا قومی قیادت کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے عوام کے ساتھ ساتھ سرکاری ملازمین کے بارے میں بھی حساس ہو اور انھیں انسانی جذبوں کے ساتھ ترقی دے۔ پولیس کو ترقی دینے کا مطلب لااینڈ آرڈر کی برقراری کو مؤثر بنانا ہوتا ہے۔ عوام کی زندگیوں کا تحفظ پولیس کی ذمہ دارانہ خدمات پر منحصر سمجھا جاتا ہے تو اس شعبہ کو اِسمارٹ بنانے کے جذبہ کو دیانت داری سے روبہ عمل لانا بے حد ضروری ہے۔