کسی جنگل میں ہاتھیوں کا ایک جھنڈ رہتا تھا ۔ ان ہی میں ایک ہاتھی راجا تھا ۔ وہ بہت بدمست اور مغرور تھا اسے اپنے آگے سارے جانور بونے لگتے تھے ۔ وہ اپنے ڈیل ڈول اپنی بے پناہ طاقت پر اتراتا تھا اور ایسے اٹھلا کر چلتا جیسے وہ جنگل کا بے تاج باشاہ ہو ۔ جنگل میں سارے چرند ، پرند اس سے خوف کھاتے تھے ۔ اگر کوئی غلطی سے اس کے سامنے آجاتا تو وہ اسے اپنے پاوں سے کچل کے رکھ دیتا تھا جدھر سے گزرتا ساے پیڑ پودے اکھاڑ دیتا ۔ جنگل کے سب ہی جانور اس بدمست ہاتھی سے بڑے دکھی اور پریشان تھے ۔
ایک دن سب مل کر جنگل کے بادشاہ شیر کے پاس گئے اور اس سے فریاد کی ۔ شیر جس کی دھاڑ سے سارا جنگل کانپ اٹھتا تھا وہ اس بدمست ہاتھی سے الجھنا نہیں چاہتا تھا ۔ اس نے بھی ہاتھی سے دور رہنے میں اپنی عافیت سمجھی ۔ راجا اپنی طاقت کے نشے میں اس قدر چور تھا کہ وہ اپنے جھنڈ میں رہنے والے ہاتھیوں پر بھی کبھی کبھی قہر برسانے لگتا تھا ۔ ایک دن پتا نہیں اسے کس بات پر غصہ آیا کہ اس نے جنگل کے درختوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا ہر طرف توڑ پھوڑ شروع کردی پرندوں کو گھونسلے تباہ اور ان کے بچے مرگئے ، جانور جنگل چھوڑ کر ادھر ادھر بھٹکنے پر مجبور ہوگئے ۔ ایک دن راجا جنگل کی طرف اٹھلاتے ہوئے جارہا تھا راستے میں چیونٹیاں جو اپنی غذا کی تلاش میں نکلی تھیں انہیں راجا نے اپے پاؤں سے مسل کر رکھ دیا ۔ سیکڑوں چیونٹیاں مر گئی جو بچ گئیں ان کا اپنے ساتھیوں کا حشر دیکھ کر براحال تھا ان میں ایک چیونٹی کافی غصیلی اور تیز مزاج تھی وہ اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر بولی ’’ اس ہاتھی کو اپنی طاقت پر حد سے زیادہ غرور ہے میں نے اگر اس کے غرور کو مٹی میں نہ ملایا تو میرا نام بھی چیونٹی نہیں ۔ اتنی بڑی ڈینگیں مارنے سے پہلے اپنی حیثیت تو دیکھ لو ۔ تم اسے پست گروگی ؟ اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ اس طرف آنکلے ہمیں یہاں سے جلد از جلد نکل جانا چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارا حشر بھی ہمارے ساتھیوں جیسا ہو ۔ ساری چیونٹیاں وہاں سے بھاگ گئیں مگر وہ چیونٹی وہاں سے نہیں ہٹی شام ہوتے ہی جب سارے ہاتھی واپس لوٹنے لگے تو وہ چیونٹی ایک درخت پر گھات لگا کر بیٹھ گئی ، جوں ہی راجا وہاں سے گزرا تو وہ اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئی اور رینگتے رینگتے اس کے کان تک پہنچ گئی اور اس میں گھس کر کانٹا شروع کردیا ۔ راجکما تلملا اٹھا اور غصے سے اپنے پاؤں زمین پر پٹخنے لگا ۔ جب درد شدت اختیار کر گیا تو وہ بے قابو ہو کر زمین اپنی سونڈمارنے لگا ۔ راجا جس کی ایک چھنگھاڑ سے سارا جنگل کانپ اٹھتا تھا لوٹن کبوتر کی طرح زمین پر لوٹنے لگا اور درد کی شدت سے اپنا سرزمین پر پٹختا رہا جب تک کہ اس کا دم نہ نکل گیا ۔ راجا کے مرنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی ۔ سارے روپوش جانور باہر نکل آئے سب نے مل کر جشن منایا چیونٹی ایک فاتح کی طرح راجا کے کان سے باہر نکل آئی ۔ باقی چیونٹیوں نے آگے بڑھ کر اس کا گرم جوشی سے استقبال کیا ۔ سب جانوروں نے سکھ کا سانس لیا ۔