جئے پور کے ادبی میلے سے سابق معتمد خارجہ شیام سرن کا خطاب ، خارجہ پالیسی کا تعین، اب ایک چیلنج
جئے پور۔29 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) ہندوستان کو چین کے اپنے ملک میں قدم جمانے کے بارے میں فکرمند ہونا ضروری ہے۔ اسے دیگر ممالک جیسے امریکہ، جاپان اور ویتنام کے ساتھ قریبی تعاون کے ذریعہ کارآمد ذہن چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ چین کا عروج اور اس کے من مانے بیانات ہندوستان کے لیے فکرمندی کی وجہ ہونا چاہئے۔ سفارتکاری کو آج جو چیلنج درپیش ہے وہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کا تعین کیسے کیا جائے جو سیاسی سرحدوں کا نہ صرف احترام کرتی ہو بلکہ ان کا تعین بھی کرتی ہو اور برادری کو بنیادی معقولیت کے زمرے میں بھی شامل کرتی ہو۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی اشتراک معقولیت پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس کا نقطہ نظر سب کی صیانت ہونا چاہئے اور یہ نظریہ ہندوستان کے پاس پہلے ہی سے موجود ہے۔ وہ جئے پور ادبی میلے میں ’’ہندوستان اور دنیا‘‘ کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کرچکے ہیں کہ چین ایک ابھرتی ہوئی عظیم طاقت ہے چاہے معاشی اعتبار سے ہو یا فوجی صلاحیت کے اعتبار سے یہاں تک کہ سائنسی اور ٹکنالوجی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی چین ایک ابھرتی ہوئی عظیم طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کا عروج ہندوستان کے لیے چیلنج کا سبب ہے۔ ہمیں چین کے ہندوستان میں قدم جمانے پر فکرلاحق ہونی چاہئے کیوں کہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ تبت تا نیپال مربوط کرنے والی شاہراہ جو مشرق اور مغرب کو مربوط کرتی ہے، زیر تعمیر ہے جبکہ ہندوستان کو نیپال سے مربوط کرنے والی سڑکیں ابتر حالت میں ہیں اور انہیں مرمت کی سخت ضرورت ہے۔ 71 سالہ سابق سفارتکار جنہیں ماہر چین سمجھا جاتا ہے کہا کہ باہمی تعلقات مزید مستحکم ہوں گے اگر نیپال میں نئی حکومت قائم ہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ چین کی طاقت پوکھرا میں نئے قونصل خانے کا قیام عمل میں لارہی ہے۔ اس طرح ہماری سرحد پر بہنے والی دریائے تراری کے کناروں پر ایک دو عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ ایک بڑا پراجیکٹ لومبنی میں قائم کیا جارہا ہے جو صیاحتی مرکز ہوگا۔ سارن نے نشاندہی کی کہ نیپال میں چین کا وجود بڑے پیمانے پر ہوگا۔ یہ اندرون ملک سیاست پر اس کے اثر و رسوخ کا آغاز ہوگا۔ جیسا کہ سری لنکا میں ہمبن ٹوٹا بندرگاہ کے سلسلہ میں ہوچکا ہے۔ آئندہ چند برسوں میں ہم چاہیں یا ناچاہیں ایسی ہی حقیقت ہمارے سامنے بھی آجائے گی۔ سارن نے کہا کہ چین کے عروج کے بارے میں انہیں کئی گہرے شکوک و شبہات ہیں۔ اس کے جانبدارانہ بیانات جو دیگر ممالک کے اندیشوں کی پرواہ نہیں کرتے، انتہائی خطرناک ہیں۔ انہیں چین کے عروج پر گہری تشویش ہے۔ یہ تشویش چین کے عروج پر نہیں بلکہ اس کے جانبدارانہ بیانات پر ہیں۔ چین ہندوستان کے ساتھ مشورہ کرنا بھی نہیں چاہتا اور وہ ہندوستان اور دیگر ممالک کے اندیشوں کی یکسوئی بھی کرنا نہیں چاہتی۔ یہ ہمیں جاپان، آسٹریلیا، امریکہ اور ویتنام کے ساتھ تعاون و اشتراک کے ذریعہ اس اندیشے کی یکسوئی کرنی ہوگی۔ مرکز کی بی جے پی حکومت چین کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے سلسلہ میں چین کی کارروائیوں کو پوری طرح نظرانداز کررہی ہے۔