28 جولائی سے اطلاق، نسلی مساوات کا فروغ اہم مقصد، شہری جوڑے دو اور دیہی جوڑے تین بچے پیدا کرسکتے ہیں
بیجنگ ۔ یکم اگست (سیاست ڈاٹ کام) چین نے مسلم اکثریتی صوبہ ژنجیانگ میں جہاں ایغور مسلمان ہمیشہ چین کی آنکھوں میں کھٹکتے رہتے ہیں، اپنی خاندانی منصوبہ بندی پالیسی میں ترمیم کرتے ہوئے ایغور اقلیتوں کو بھی اس میں شامل کرنے کی جانب پیشرفت کردی ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق چین نے اپنی 40 سالہ ایک خاندان ایک بچہ والی پالیسی میں نرمی کا اعلان کیا ہے جو دراصل چین کے اکثریتی طبقہ ہن پر لاگو ہوتی تھی جو چین کی آبادی میں 90 فیصد کا تناسب رکھتے ہیں جبکہ چین کی جملہ آبادی 1.3 بلین نفوس پر مشتمل ہے۔ اس پالیسی میں اقلیتی طبقہ یعنی مسلمانوں اور تبتوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بہرحال اب نئی پالیسی کا اطلاق 28 جولائی سے کیا گیا ہے۔ ژنجیانگ میں اس پالیسی کے ذریعہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ گلوبل ٹائمز نے یہ بات بتائی جس کے مطابق ژنجیانگ میں اب یکساں خاندانی منصوبہ بندی پالیسی پر اطلاق شروع ہوگیا ہے جس کے ذریعہ تمام نسلی گروپ کا احاطہ کیا گیا ہے، جسکے بارے میں چینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ اسکے ذریعہ نسلی مساوات کو فروغ حاصل ہوگا۔ ژنجیانگ کیلئے وضع کی گئی نئی خاندانی منصوبہ بندی پالیسی کے مطابق علاقائی نسلی اقلیتیں اب خاندانی منصوبہ بندی میں دی گئی رعایتوں سے مزید استفادہ نہیں کرسکیں گی۔ نئی پالیسی کے مطابق 28 جولائی سے اس خطہ کے تمام شہری جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہوگی جبکہ دیہی جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ اقدام دراصل چین کی جانب سے ژنجیانگ صوبہ کیلئے وضع کی گئی سخت پالیسیوں کا ہی حصہ ہے جہاں ترک زبان بولنے والے ایغور مسلمانوںکی اکثریت ہے اور جنہوں نے یہ شکایت بھی کی تھی کہ انکے علاقے قدرتی وسائل سے مالامال ہیں جن سے استفادہ کرنے چین کا اکثریتی ہن طبقہ بھی یہاں نقل مکانی کررہا ہے۔
یاد رہیکہ ان حالات کیلئے چین نے ہمیشہ علحدگی پسند ایسٹ ترکستان اسلامک موومن (ETIM) کو حملوں کیلئے موردالزام ٹھہرایا اور کئی تحدیدات جن میں مسلمانوں خواتین کے ذریعہ حجاب کاا ستعمال کرنے کی اجازت نہ دینا بھی شامل ہے۔ 2016ء کے اعداد و شمار کے مطابق ژنجیانگ کی آبادی 23.98 ملین بتائی گئی ہے۔ دوسری طرف ژنجیانگ کے علاقائی اعداد و شمار کے مطابق 2010ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق 8.7 ملین آبادی ہن طبقہ پر مشتمل ہے جو جملہ آبادی کا 40.1 فیصد ہے اور اس میں 2000ء میں کئے گئے سروے کے مقابلے 16.77 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثناء تقریباً 13 ملین اقلیتیں (جن میں اکثریت ایغور مسلمانوں کی ہے) ژنجیانگ میں رہائش پذیر ہیں جو گذشتہ کے مقابلہ 19.12 فیصد کا اضافہ ہے۔ گلوبل ٹائمز کی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہیکہ سابق میں علاقائی حکومت نے شہری ہن جوڑوں کو ایک بچہ پیدا کرنے اور شہری اقلیتی جوڑوں کو دو بچے پیدا کرنے کی اجازت دی تھی۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ دیہی اقلیتی جوڑے تین بچے پیدا کرسکتے ہیں جو دیہی ہن جوڑوں کے مقابلے ایک زائد ہے۔ ان تمام تبدیلیوں اور ترمیمات سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہیکہ حکومت چین نسلی مساوات کا احترام کرتی ہے لہٰذا ان اقدامات کی دیگر مقامات تک بھی توسیع کی جانی چاہئے۔ خصوصی طور پر اقلیتی علاقوں میں جس کیلئے مقامی حالات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ڈیموگرافکس کے اسپیشلسٹ ہوانگ ونیزہینگ نے یہ بات بتائی۔ دوسری طرف پروفیسر لاڈیشینگ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ترمیم شدہ پالیسی اب چین کی اس نسلی مساوات والی پالیسی سے مطابقت رکھتی ہے جس کے تحت اس خطہ میں آباد تمام قومیت کے لوگوں کو یکساں حقوق و مراعات حاصل ہیں۔ یاد رہیکہ ان دنوں چین اور ہندوستان سکم تنازعہ کی وجہ سے دست و گریباں ہیںلیکن چین وقتاً فوقتاً اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتا رہا ہے تاکہ عوام کو یہ شکایت نہ ہو کہ ساری توجہ دفاعی معاملات پر ہی مرکوز رکھی گئی ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔