ائے رہرو فرزانہ رستے میں اگر تیرے
صحرا ہے تو آندھی ہو ، گلشن ہے تو شبنم ہو
چیف منسٹر ۔ اقدامات ضروری
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ نے اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل کی سمت قدم اٹھاتے ہوئے زرعی قرضوں کی معافی کے احکام جاری کرکے حکمرانی کی ہمدردانہ شروعات کی ہے۔ کسانوں کے زرعی قرضہ جات کو بالآخر ایک لاکھ روپئے تک معاف کردیا جارہا ہے۔ تلنگانہ کے قیام اور نئی حکومت کی تشکیل کیلئے ریاست کے کسانوں نے بھی اپنا حصہ ادا کیا ہے۔ چیف منسٹر کو اس بات کا اعتراف ہے کہ انہیں اقتدار دلانے میں ریاست کے ہر باشندہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا خاص کر طلباء برادری اور مسلمانوں کے رول کو وہ ہرگز انکار نہیں کرسکتے۔ انتخابی وعدوں کی تکمیل کی جانب اقدامات کی شروعات ہوئی ہے تو چیف منسٹر سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلم تحفظات کے بارے میں جلد سے جلد پیشرفت کریں گے۔ ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کی پسماندگی کا مسئلہ دیرینہ ہے۔ ہر حکومت کو مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور سماجی کیفیت کا علم ہے۔ اس کے باوجود ان کے حق میں منصفانہ فیصلے و پالیسیاں بنا کر عمل آوری کے لئے دیانتداری کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ چونکہ تلنگانہ ریاست اور یہاں کی پرانی تہذیب سے واقف ہیں۔ یہاں کے مسلم طبقہ کی معاشی زندگی سے بھی باخبر ہیں تو انہیں اس جانب فیصلے کرنے اور ان پر عمل آوری کو یقینی بنانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ انتخابی وعدوں کی عدم تکمیل کو ہر رائے دہندہ ایک ناپسندیدہ عمل یا دھوکہ متصور کرتا ہے۔ لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے شاطر سیاستدانوں نے اپنے عزائم کی تکمیل اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے انتخابی وعدے کئے تھے مگر چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی۔ وہ پرعزم طور پر اپنے منصوبوں کو روبہ عمل لانے کوشاں دکھائی دے رہے ہیں۔ انہیں اپنے کارناموں کو واضح کرنے کیلئے سرکاری عہدیداروں کو پابند کردینا ہوگا تاکہ عوام الناس کو محسوس ہو کہ تلنگانہ کی حکومت کام کررہی ہے۔ ٹی آر ایس نے انتخابی مہم کے دوران بڑی محنت اور جوش و خروش سے عوام کا دل جیتا تھا۔ خواتین، بچوں اور ہر شہری کے بہتر مستقل کا وعدہ کیا تھا۔ ایک بہتر نظم و نسق، رشوت سے پاک ماحول، لاء اینڈ آرڈر کو بہتر بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ پولیس کی کارکردگی کو مؤثر بنانے کے منصوبے بنا کر ان پر عمل آوری کی خاطر محکمہ پولیس کو عصری موٹر گاڑیاں اور دیگر عصری انفراسٹرکچر سے آراستہ کرنے کے اقدامات کئے گئے مگر افسوس اس بات کا ہیکہ ریاست میں پولیس کی کمزور کارکردگی سے عوام الناس کے جان و مال، امن و سکون کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ غریبوں کا استحصال کرنے اور غنڈوں کے راج کو ہوا دی جارہی ہے۔ شہر اور ٹاونس میں غنڈوں کی زیادتیاں بڑھ گئی ہیں۔ ناجائز قبضے، سرقہ کی وارداتیں، عصمت ریزی و قتل کے واقعات میں اضافہ سے پولیس اور محکمہ داخلہ کی کارکردگی پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ بچوں کے اغواء اور چند روپیوں کی خاطر غریب ماں باپ کی اولاد کو لاولد دولتمند جوڑے کو فروخت کرنے کے واقعات بھی افسوسناک ہیں۔ عوام کو اس بات کا اطمینان ہوا تھا کہ نئی ریاست تلنگانہ میں ٹی آر ایس حکومت اپنے مقاصد اور منصوبوںکو بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کو صاف ستھری حکومت اور پاکیزہ نظم و نسق فراہم کرے گی۔ پولیس کی کارکردگی کو غیرجانبدار بنایا جائے گا۔ شہر میں ایسے کئی ریاکٹس کام کررہے ہیں جو غریب عوام کو ٹھگتے ہیں، ڈاکہ ڈالتے ہیں، ان کے گھروں پر قبضہ کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں شہر اور اضلاع میں دھوکہ دہی، ناجائز قبضوں، ڈاکہ زنی، سرقہ کی وارداتیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ تلنگانہ کا پولیس نظم و نسق کمزور پڑ گیا ہے یا جرائم پسند افراد کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں۔ ان میں قانون کا خوف نہیں ہے۔ حال ہی میں گاندھی نگر پولیس نے لاولد جوڑوں کو نومولود فروخت کرنے والے ریاکٹ کو بے نقاب کیا تھا مگر خاطی قانون کی گرفت سے آزاد ہیں اور انہیں گرفتار بھی کیا جاتا ہے تو وہ آسانی سے رہا ہوجاتے ہیں۔ زانیوں اور ڈاکوؤں کو قانون کا ڈر نہ ہو تو معاشرہ میں ابتری اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ پولیس کی کارکردگی پر نظر رکھنے کیلئے حکومت کو خاص کر چیف منسٹر کو راست نگرانی رکھنے کی ضرورت ہے اگر پولیس اپنے فرائض کی انجام دہی میں کاہلی و تساہل سے کام نہیں لے گی تو شہریوں کو جان و مال کے تحفظ کا یقین ہوجاتا ہے۔ پولیس کے انتظامی معاملوں میں اگر حکومت کی اعلیٰ قیادت کا عمل دخل کم ہوجاتا ہے تو لاپرواہی بڑھ جاتی ہے اور جرائم میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پولیس کو اپنے کام سے کوتاہی نہیں کرنی چاہئے کسی معاشرے کے مہذب و متمدن ہونے کی سب سے بڑی اور بنیادی پہچان یہ ہوتی ہیکہ اس میں بچوں اور عورتوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے۔ تلنگانہ معاشرہ کی پہچان قابل قدر ہے۔ اس لئے چیف منسٹر کے سی آر کو تلنگانہ معاشرہ میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو روکنے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔