چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا دورۂ دہلی

جوش و جذبہ سے کچھ نہیں حاصل
مصلحت ہے مصالحت کرلو
چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کا دورۂ دہلی
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ کا پہلا دورہ دہلی اور وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کتنا کامیاب رہا اور تلنگانہ کو اس دورہ کے کیا فوائد حاصل ہوں گے فی الحال اسے امکانات و توقعات کے حاشیہ پر رکھا جائے کیونکہ نریندر مودی حکومت سے تلنگانہ کے بارے میں فی الفور کوئی بڑی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تلگودیشم کی اتحادی پارٹی بی جے پی نے سیما آندھرا کیلئے اپنا ذہن بنایا ہے۔ تلنگانہ کے بارے میں اس کی سوچ و فکر کا دائرہ کتنا تنگ اور کتنا وسیع ہوتا ہے یہ آنے والے دنوں میں مرکز تلنگانہ تعلقات، اسکیمات، فنڈس کی اجرائی، علاقائی عوامکی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے مرکز کے دیانتدارانہ اقدامات سے پرکھا جاسکتا ہے۔ چیف منسٹر نے اپنے پہلے دورہ کے حصہ کے طور پر وزیراعظم سے اہم امور پر بات چیت کی ہے۔ نئی ریاست تلنگانہ کی ترقی کیلئے ضروری ہیں۔ کے چندرشیکھر راؤ نے 14 مسائل کی جانب وزیراعظم کی توجہ مبذول کرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اے پی ای آرگنائزیشن ایکٹ می ںنہ دیئے گئے تیقنات پر من و عن عمل آوری کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا۔ تاہم چیف منسٹر ضلع کھمم میں 7 منڈلوں کی منتقلی کیلئے مرکز کے آرڈیننس کو رکوانے کی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں وہ ازخود جانتے ہیں۔ پولاورم جیسے ملٹی پرپز پراجکٹ کی مخالفت کو مودی حکومت نے کوئی خاطر میں نہیں لایا ہے۔ البتہ مودی کابینہ میں شامل مرکزی وزیر کامرس نرملا سیتارامن کے اس بیان سے یہ خوش کن اطمینان ہونا چاہئے کہ تلنگانہ کو بھی گجرات کے خطوط پر ترقی دی جائے گی۔ آندھراپردیش کی تقسیم کیلئے جن اصولوں اور ضابطوں کو وضع کیا گیا ہے ان کو من و عن اختیار کرتے ہوئے مرکز کی جانب سے اقدامات کئے جاتے ہیں تو کوئی شکایت پیدا نہیں ہوگی۔ دونوں ریاستوں کی مدد کرنا مرکز کی ذمہ داری ہے۔ سیتارامن نے تلنگانہ کے قیام پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اس نوزائد ریاست کو گجرات کی طرح ملک کی بہترین ریاستوں میں شمار کئے جانے کے قابل بنانے کا یقین ظاہر کیا ہے تو پھر مرکز کو تلنگانہ کے اندر تمام شعبوں میں ترقیاتی کام انجام دینے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے اس دورہ کے بعد تلنگانہ میں تمام شعبوں، صنعتی شعبہ کے سالانہ زرعی شعبہ کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہوگی۔ بلاشبہ نئی ریاست کے قیام کے بعد روزگار کے بے شمار مواقع پیدا ہوتے ہیں تو اس کا راست مصرف تب ہی ہوگا جب تلنگانہ کے نوجوانوں کو مستقل اور مضبوط روزگار حاصل ہوگا۔ تلنگانہ کے نوجوانوں کو ماہرانہ تربیت کے مواقع بھی فراہم کرنا مرکز کی اولین ذمہ داری ہے۔ چیف منسٹر نے وزیراعظم سے اپنی ملاقات میں بھی ان ہی امور کی جانب توجہ دلائی ہے۔ مودی کے حلف لینے کے پندرہ دن بعد بھی مرکز سے ایسا خاص بیان نہیں آیا ہے کہ کئی ریاست تلنگانہ میں خوشحالی، ترقی اور روشن خیالی کیلئے کام کرنے میں مرکز نے دلچسپی دکھائی ہو۔ سردست چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے دورہ دہلی اور اپنی گنجائش و طاقت کے مطابق تلنگانہ کے بارے میں اپنی تشویش سے مرکز کو واقف کرانے کی کوشش ضرور کی ہے مگر ان کی اصل توجہ متنازعہ چولاورم پراجکٹ پر مرکوز تھی اس حوالے سے تلنگانہ کیلئے وہ انصاف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مرکز کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار کرنا کسی علاقائی چیف منسٹر کیلئے مناسب نہیں ہوتا اس لئے کے سی آر نے بھی اپنے پہلے دورہ کے دوران ایسا کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا جس سے تصادم کی نوبت پیدا ہوسکے۔ جہاں تک پولاورم پراجکٹ کا تعلق ہے پارلیمنٹ میں مرکز کے آرڈیننس کو روکنے احتجاج کی دھمکی دی گئی ہے۔ احتجاج کرنا ہر ایک کا جمہوری حق ہے۔ یہ امر تشویشناک ہیکہ علاقائی سطح پر نئی ریاست کی حق تلفی کرتے ہوئے پولاورم پراجکٹ کو قطعیت دی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں مرکز کی عدم دلچسپی کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اصل مسائل کی طرف سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور ترجیحات بھی تبدیل ہوجاتی ہیں۔ ریاستی انتظامیہ اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں علاقائی ترقی کیلئے بنائے گئے منصوبوں پر صرف کرنا شروع کردیتی ہے۔ اس کو مرکز کے عتاب کا شکار بنادیا گیا تو پھر تنازعات ابھرنے لگتے ہیں۔ جہاں تک اس مسئلہ پولاورم پراجکٹ کے سیاسی پہلو کا تعلق ہے توقیاس غالب ہے کہ سیما آندھرا سے سیاسی ہمدردی دکھانے کیلئے تلنگانہ کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ چیف منسٹر کے سی آر کو اپنی سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بین ریاستی امور پر موافق تلنگانہ پالیسی وضع کرتے ہوئے حصول انصاف کی کوشش کرنی چاہئے۔ تلنگانہ اور مرکز کے ساتھ تعلقات کو کشیدہ بنانے یا تنازعہ کا موجب بننے والے عوامل سے گریز کیا جائے۔ تلنگانہ کیلئے خصوصی پیاکیج کے حصول کیلئے کوششوں کو آخری تک جاری رکھا جانا چاہئے۔ چندرشیکھر راؤ کے دورۂ دہلی کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہیکہ تلنگانہ کو ترقی کے ثمرات سے بہرہ ور کرنے کیلئے وہ اپنے کوششوں کو جاری رکھیں گے تاکہ برسوں سے علاقائی عوام کا احساس محرومی دور ہوسکے۔