خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
کہ ترے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
چیف منسٹر کا دورہ ٔسنگاپور
تلنگانہ کے قیام کے بعد کوئی بھی روشنی کی کرن عوام کو نظر نہیں آتی البتہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ دن بہ دن تلنگانہ اور اس کے شہروں خاص کر حیدرآباد کو بھی سنگاپور کی طرح اعلیٰ درجہ کا شہر بنانے کے اعلانات کرتے آرہے ہیں۔ چیف منسٹر کا دورہ سنگاپور اور ملائیشیا نئی ریاست میں بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی سمت پہلا اور مثبت قدم کہا جارہا ہے۔ چیف منسٹر نے سنگاپور میں کئی اہم صنعتکاروں اور تاجرین کے وفود سے ملاقات کی ہے۔ توقع کی جارہی ہیکہ ان کے دوروں سے تلنگانہ کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہوگا لیکن جو ریاست اپنے وجود کے ساتھ ہی برقی بحران، عوامی مسائل اور پانی کی قلت، کسانوںکی خودکشیوںسے پریشان ہے، گھر گھر سروے کے نام پر سرکاری مشنری و عوامی زندگی کو ایک دن کیلئے مفلوج کرکے بھی عوام کو کچھ فائدہ نہ ہو تو پھر جدوجہد تلنگانہ، حصول ریاست کے مقاصد معلق ہوجاتے ہیں۔ عوام کو ابھی تک کچھ راحت نہیں ملی البتہ یہاں کے لیڈروں کے چہرے ابھی بھی الیکٹرانک چینلز پر پوری روشنی کے ساتھ نظر آرہے ہیں۔ جن سیاسی سورماؤں نے عوام کے عقل و شعور کو چھین لیا ہے وہی اب انہیں برقی، پانی سے محروم کررہے ہیں۔ شہروں کے مسائل الگ اور دیہی عوام کی پریشانیاں جوں کی توں ہیں۔ وہ دھرنوں اور احتجاجی تحریکوں سے حاصل کردہ ریاست کو ایک طاقت دینے کیلئے چیف منسٹر نے کئی منصوبے بنائے ہیں یا بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عوام ان کے چہرے کو دیکھ مطمئن ہورہے ہیں کہ ایک نہ ایک دن وہ کچھ بہتری لائیں گے۔ ان کے مخالفین کو ہرگز یقین نہیں ہورہا ہے کہ وہ تلنگانہ میں ترقی و خوشحالی کی لہر دوڑانے میںکامیاب ہوں گے۔ برقی حکام نے دونوں شہروں میں روزانہ 6 گھنٹے برقی کٹوتی کا سلسلہ برقرار رکھا ہے۔ تلنگانہ کے اضلاع میں اس سے زیادہ برا حال ہے۔ ایک طرف کسان پریشان، دوسری طرف چھوٹی و متوسط صنعتوں کو خاطرخواہ برقی نہیں مل رہی ہے۔ اضلاع کے عوام کو 12 تا 14 گھنٹے برقی کٹوتی کا سامنا ہے۔ تلنگانہ حکومت برقی نظام کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدہ کوششیں کرنے کا ادعا کرتے آرہی ہے۔ برقی خریدی کے لئے ایڑی چوٹی کا زور دے رہی ہے مگر سارے ملک میں برقی کی قلت ہو تو کسی بھی قیمت پر برقی خریدنے تلنگانہ حکومت کا منصوبہ پورا نہیں ہورہا ہے۔ برقی کے نازک مسئلہ سے نمٹنے میں چیف منسٹر بری طرح ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ جب سے ریاست کی باگ ڈور سنبھالی ہے برقی نے انہیں کڑی و سخت آزمائش میں مبتلاء کردیا ہے۔ افسوس اس بات کا ہیکہ تلنگانہ پر آندھرائی قائدین کی حکمرانی کی وجہ سے اس ریاست میں برقی سربراہی اور حصول کے تمام راستوں کو کشادہ نہیں کیا گیا۔ ٹرانسمیشن کی رابطہ کاری نہ ہونے سے بھی دیگر ریاستوں سے برقی خریدی کا مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔ اگرچیکہ چیف منسٹر نے پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ سے 2000 میگاواٹ برقی خریدی کی اجازت دی تھی مگر برقی لانے کیلئے لائسنس نہ ہونے سے مسئلہ جوں کا توں ہے۔ کسی بھی حکومت کیلئے عوام الناس کو 24 گھنٹے پانی اور برقی کی سربراہی بنیادی ضرورت ہے لیکن تلنگانہ میں برسوں سے حکومت کرنے والی کانگریس نے ریاست کو پسماندگی سے باہر نکالنے ترقیات کا جال پھیلانے کی کوئی دیانتدارانہ کوشش نہیں کی لیکن اب نئی حکومت کو یہ کام انجام دینے کیلئے وقت طلب مرحلوں سے گذرنے کا وقت آ گیا ہے۔ برقی کے بغیر ترقی کا خواب ادھورا رہے گا۔ تلنگانہ کو سنگاپور اور کریم نگر کو لندن بنانے کا خواب تب ہی پورا ہوگا جب شہریوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ کانگریس نے گذشتہ 10 سال کے دوران تلنگانہ کو ترقی کی صف میں بہت پیچھے ڈھکیل دیا تھا اس کا ثبوت اب مل رہا ہے۔ ریاست میں کمزور انفراسٹرکچر اور سرمایہ کاری کو صفر کردینے کے بعد تلنگانہ کے قیام کا مقصد آنے والی نئی حکومت کیلئے مسائل کا انبار کھڑا کرنا تھا۔ کے سی آر کیلئے نئی ریاست پر حکومت کرنا واقعی کانٹوںکا تاج محسوس ہورہا ہوگا لیکن ریاست کے بدترین دنوں کو پیچھے ڈھکیل کر آنے والے ترقی و خوشحالی کے دنوں کو یقینی بنانے کی سمت مضبوط قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ چھتیس گڑھ سے برقی خریدنے کی کوشش عوام کو محض بے وقوف بنانا نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جب برقی گرڈ ہی نہ ہو تو برقی رو دوڑے گی کیسے۔ برقی گرڈ تیار کرنے کیلئے 3000 کروڑ روپئے کی لاگت ہوگی تو نئی حکومت اتنی کثیر رقم کا بندوبست نہیں کرسکے گی۔ اگر سابق کی حکومتوں نے دوراندیشی سے کام لیا ہوتا تو تلنگانہ میں برقی و پانی کا مسائل سنگین نہیں ہوتا۔ کے چندرشیکھر راؤ کو اپنی حکومت کے قدم مضبوط بنانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کیلئے اہل دانش سے صلاح و مشورے کرنے ہوں گے۔ انہیں ’’چانکیہ‘‘ کو تلاش کرنا ہوگا جو ان کی حکومت کی عمر دراز کرنے کے مشورے دے سکے۔ سنگاپور کا دورہ کے سی آر کو کسی چانکیہ سے ملادے تو یہ مثبت تبدیلی ہوگی۔