چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ

تعظیمِ اقتدار ضروری تو ہے ، مگر
’’اتنا نہ سر جھکاؤ کہ دستار گر پڑے‘‘
چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ
چیف منسٹر تلنگانہ کے چندرشیکھر راؤ کو ٹی آر ایس پارٹی صدر کی حیثیت سے دوبارہ منتخب کیا گیا۔ پارٹی کے پلینری سیشن میں متفقہ طور پر ان کے انتخاب کو پارٹی کے ہزاروں حامیوں نے جوش و خروش کے ساتھ قبول کیا۔ 27 اپریل 2001 ء کو ٹی آر ایس کے قیام کے وقت چندرشیکھر راؤ نے جس عزم کی بنیاد ڈالی تھی آج اس بنیاد پر تلنگانہ ریاست کھڑی ہے۔ نئی ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے کے سی آر کو ان کی کوششوں کا ثمر ملا ہے۔ عوام میں ان کی مقبولیت اور ان کی پالیسیوں کی قبولیت نے ہی انھیں اور ان کی پارٹی کو نئی ریاست میں زبردست پذیرائی سے ہمکنار کیا ہے۔ 61 سالہ کے چندرشیکھر راؤ نے علیحدہ ریاست تلنگانہ کی تحریک میں 2009 ء میں اُس وقت جان ڈال دی تھی جب اُنھوں نے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کی تھی۔ مرکز میں اس وقت کی یو پی اے حکومت کو علیحدہ ریاست تلنگانہ کے قیام کا مطالبہ قبول کرنے کیلئے مجبور کردیا تھا۔ 2 جون 2013 ء کو تلنگانہ عوام کے دیرینہ خواب کی تعبیر عمل میں آئی۔ اُس وقت ٹی آر ایس کا پلینری سیشن کئی خوبیوں کے ساتھ منعقد ہورہا ہے۔ اس سیشن میں چیف منسٹر کو اپنے ماقبل تلنگانہ عزائم اور مابعد قیام تلنگانہ منصوبوں کو مجتمع و مستحکم کرکے عوام کے لئے زیادہ سے زیادہ بہتر کام انجام دینے کے جذبہ کا احیاء کرتا ہے۔ ہندوستان کو 29 ویں ریاست دلانے والے کے سی آر سے عوام نے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان پر وہ کتنے کھرے اُتر رہے ہیں، اس کا اندازہ ان کی حکومت کی تیز تر کامیابی سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد اُنھوں نے ریاست کو ڈپٹی چیف منسٹر کا قلمدان ایک مسلم اور ایک دلت لیڈر کے تفویض کرکے انصاف پسندی کا فراخدلانہ فیصلہ کیا تھا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ حکومت کی صفوں میں کوئی بھی طاقت دراڑ پیدا کرنے کی ہمت نہیں کررہی ہے۔ حکومت سنبھالنے کے بعد کے سی آر کے ہاتھوں کو مضبوط کرنے کے لئے دیگر پارٹیوں سے وابستہ عوامی قائدین کی ایک بڑی تعداد نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی تھی اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ کے سی آر کے انداز تکلم کو ماننے والوں نے یہ بھی تسلیم کیاکہ انھیں عوام کے دل جیتنے کا ہنر حاصل ہے۔ اس کے ساتھ وہ زبان و بیان پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ریاست میں عوام کی ترقی کے نظام کو ٹھپ کرکے اپنے ذاتی مفادات پر توجہ دینے والے قائدین کو بے دخل کرنے کے بعد تلنگانہ کے معاشرے میں پھیلی رشوت ستانی کو بھی اُنھوں نے ختم کرنے کی جانب قدم اُٹھایا تھا مگر اس میں انھیں ہنوز کامیابی نہیں ملی ہے۔ ماضی کی حکومتوں میں تلنگانہ عوام کے اندر جو بد دلی اور مایوسی پھیلی تھی اس کو دور کرنے میں کے سی آر کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں یہ عوام ہی بہتر جانتے ہیں۔ غریبوں، کسانوں اور بے روزگاروں، مزدوروں کے مسائل ہر اگرچیکہ ان کی حکومت نے توجہ مرکوز کی ہے۔ اس میں اب تک نتیجہ خیز کامیابی نہیں مل سکی۔ کے سی آر کے پاس ابھی وقت ہے آئندہ چار سال کے دوران انھیں اپنے عزائم اور منصوبوں کی چادر کو وسعت دینی ہوگی۔ دیکھنے میں وہ ایک سادہ انسان ہیں لیکن اندر کی خوبیاں ان کی حکمرانی کی صلاحیتوں سے ظاہر ہوں تو عوام کو راحت ہی راحت مل سکتی ہے۔ اُنھوں نے تلنگانہ میں برقی بحران کو دور کرنے کا جو عہد کیا تھا اس کو بلاشبہ پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ برقی کٹوتی سے چھٹکارا دلانے کا اعلان کرتے ہوئے پلینری سیشن میں اُنھوں نے اپنی حکومت کی ترجیحات کو بھی پیش کیا ہے۔ توقع کی جاتی ہے کہ ان کی حکومت میں اقلیتوں کو مایوسی نہیں ہوگی۔ اب تک اُنھوں نے مسلمانوں کے حق میں کچھ کر دکھانے کا مظاہرہ ضرور کیا ہے لیکن حالیہ وقار احمد اور دیگر مسلم نوجوانوں کے انکاؤنٹر واقعہ نے ٹی آر ایس حکومت کے خلاف مسلمانوں کے اندر جو بے چینی پیدا کی ہے اس کو دور کرنے میں وہ یکسر ناکام رہے ہیں۔ شہری و دیہی ترقیات کے کاموں روزگار کی فراہمی کے معاملہ میں ٹی آر ایس حکومت کو اپنی کارکردگی کی رفتار میں تیزی لانے اور اس کو شفاف بنانے پر دھیان دینا ہوگا۔ چیف منسٹر پر بعض گوشوں سے اعتراضات اور الزامات بھی عائد کئے جارہے ہیں۔ اول یہ کہ ان کا طرز حکومت آمرانہ ہے۔ اس طرز حکومت میں اقربا پروری پر تکیہ کیا جارہا ہے۔ لیکن شکایت کنندگان بھی کم و بیش ایک ہی سیاسی برادری سے ہیں تو چیف منسٹر کی حکمرانی پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔
نیٹ نیوٹرالیٹی اور ٹیلی کام اتھاریٹی
انٹرنیٹ پر بڑی کمپنیوں کا غلبہ پیدا کرنے کی غرض سے ٹیلی کام ریگولیٹری اتھاریٹی آف انڈیا نے جو قدم اُٹھایا ہے اس کو مفاد عامہ کے مغائر سمجھا جارہا ہے۔ ٹرائی نے عوام الناس کے حق اظہار خیال کی آزادی کو سلب کرنے کی نیت سے نیٹ نیوٹرالیٹی کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے تو اس کی یہ کوشش عوام کے لئے ناقابل قبول ہوگی۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ نیٹ نیوٹرالیٹی کی مدافعت کرے اور ٹرائی کی پیدا کردہ غلط فہمیوں کو ختم کردے۔ ٹیلی کام کمپنیوں اور اس میدان کے اعلیٰ کھلاڑیوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے کی کوشش ہے جس سے عوام الناس کو انٹرنیٹ تک رسائی مشکل بنادی جائے گی۔ انٹرنیٹ تک عوام کو رسائی حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کی رکاوٹ کھڑی کرنے کا مطلب ترقی کے امکانات کو مفقود کرنا ہے۔ نیٹ نیوٹرالیٹی میں ہر ایک کو یکساں موقع دیا گیا ہے۔ اگر ٹرائی یا حکومت اس انٹرنیٹ کی اتھاریٹی چند کمپنیوں کے حوالے کردے تو یہ کمپنیاں ہی فیصلہ کریں گی کہ آیا عوام کو کیا استعمال کرنا چاہئے یا کیا نہیں۔ صارفین کے حقوق کو چھین لینے کا مطلب عام آدمی کے حقوق پر ڈاکہ ہے۔ صارفین کو حاصل آزادی ان کا حق ہے۔ یہ حق انٹرنیٹ کمپنیوں اور خانگی کمپنیوں کو نہیں دیا جاسکتا۔ آخر حکومت یا اس کے محکموں کی زیادتیوں کا سامنا عوام کب تک کریں گے عوام کو اپنے حقوق اور آزادی کے لئے کیوں کر جدوجہد کرنی چاہئے۔ کارپوریٹ کمپنیوں کو عوام پر پابندیاں عائد کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ حکومت کو عوام کی آواز اور احساسات کا احترام کرنا ہوگا۔