سیاسی تاریخ کا شعور حاصل کرنے کیلئے جب کوئی حکمراں یا دستوری عہدہ کی حامل شخصیت اپنے اختیارات کے استعمال پر باہم متصادم ہوتے ہیں تو اس کے نتائج بھی ناپسندیدہ ہوتے ہیں ۔ لیفٹننٹ گورنر دہلی نجیب جنگ نے دہلی کی حکومت میں کئی اہم عہدوں پر کلیدی بیوروکریٹس کے تقرر کے لئے اپنے اختیارات استعمال کئے تھے ۔ دہلی میں جبکہ ایک منتخب حکومت ہے اور تمام بڑے سرکاری فیصلے اسی حکومت کے سپرد ہوتے ہیں لیکن چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے لیفٹننٹ گورنر نجیب جنگ کی اس کارروائی کو غیردستوری قرار دیا اور اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا ۔ دونوں دستوری اقدار کی پابندی کرنے والے پابند قانون حکمراں ہیں لیکن دہلی کی سیاست میں آئے دن اچانک دھمکی آمیز واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں دستوری بحران جیسی صورتحال رونما ہوتی ہے ۔ لیفٹننٹ گورنر کا کہنا ہے کہ انھوں نے بیورو کریٹس کے تقرر و تبادلوں کے لئے اپنے اختیارات کا استعمال کیا ہے ، ان کی کوئی بھی کارروائی ’’غیردستوری‘‘ نہیں ہے جیسا کہ عام آدمی پارٹی حکومت نے الزام عائد کیا ہے ۔
دستوری اتھاریٹی کو اس طرح کے اختیارات استعمال کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں اس بحث کے آئینہ میں یہ بات واضح ہونا چاہئے کہ محکموں میں تقررات کافیصلہ کرنے کے لئے آیا چیف منسٹر ہی درست حق رکھتا ہے ۔ چیف منسٹر دہلی اروند کجریوال نے بھی لیفٹننٹ گورنر کے اختیارات پر سوال اُٹھائے ہیں اور اس سلسلہ میں قانونی رائے طلب کی ہے ۔ اروند کجریوال کے کیس کی نمائندگی نامور وکیل راجیو دھون کررہے ہیں جو سپریم کورٹ کے وکیل بھی ہیں ۔ ان کے مکتوب میں بتایا گیا ہے کہ چیف منسٹر کے اختیارات وسیع ہوتے ہیں اور اروند کجریوال وہی کچھ کررہے ہیں جس کا انھیں اختیار حاصل ہے ۔ چیف منسٹر کو کامل اختیار ہے کہ وہ اپنی مرضی سے چیف سکریٹری کا تقرر عمل میں لاسکتے ہیں ۔ دہلی میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد اروند کجریوال کو اپنے اختیارات کی بقا کے لئے گورنر کے ساتھ جنگ نہیں کرنی چاہئے ۔ کسی بھی ریاست کے گورنر کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی ایک علحدہ شناخت بنانے کی کوشش کریں ۔ دہلی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ درست نہیں ہے ایک طرف دستوری عہدیدار ہیں تو دوسری طرف اروند کجریوال کی حکومت بھی دستوری اصولوں کے مطابق ایک عوامی منتخب ادارہ ہے۔ ریاستی حکومتوں کو اپنے وسائل کے مطابق ہی کام کرنا ہوتا ہے ۔ دستور کے جمہوری نظام میں نئی چیف سکریٹری کے تقرر کا معاملہ ہے ، گورنر نجیب جنگ کو آزادانہ اختیارات حاصل نہیں ہوتے مگر عام آدمی پارٹی کی گورنر کے عہدہ سے رسہ کشی کا فوری منطقی انجام دیا جانا چاہئے ۔ ایک منتخب حکومت کے رہتے ہوئے لیفٹننٹ گورنر کو یہ قدم نہیں اُٹھانا چاہئے ۔
گورنر نے شکنتلا گیملن کو سی ایس کی حیثیت سے تقرر کیا ہے اب وہ بزنس اور قواعد پر کام کرتے ہیں ۔ گورنر ایک دستور کا فریضہ ادا کرتے ہیں تو انھیں تنازعات سے پاک ہونا چاہئے ۔ دہلی کے اقتدار سے محروم بی جے پی کو موجودہ حکومت اور گورنر کے درمیان جاری رسہ کشی سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں ہے ۔ دہلی کے واقعات کااگرسنجیدگی سے جائزہ لیں تو عام آدمی پارٹی کو گورنر کی اتھارٹی پر اعتراض ہے ۔ اس ضمن میں یہ توقع کی جاسکتی ہے طرفین اس بات پر راضی ہوجائیں کہ آئندہ دہلی میں اس طرح کا تنازعہ پیدا نہیں ہوگا ۔ جب دونوں قائدین کے درمیان اعلیٰ سطحی بات چیت کا مرحلہ شروع ہوتا ہے تو یہ اچھی تبدیلی ہوگی ۔ تقررات و تبادلے کے معاملہ میں ماضی میں ہونے والے واقعات کا اعادہ نہ ہونا چاہئے اس نظام میں سب سے بڑی خرابی اپنے اختیارات پر فخر کرنا ہے ۔ گورنر دہلی کو جو مراعات حاصل ہے ان پر غور کریں تو دستوری عہدہ کی حامل شخصیت کو زیادہ زچ بھی نہیں کیا جاسکتا اس لئے دونوں کو چاہئے کہ اپنے فرائض سے روگردانی نہ کریں۔ یہ مسئلہ صدرجمہوریہ پرنب مکرجی سے رجوع ہوا ہے ۔ دہلی کے عوام کے بہتر مستقبل کا انحصار عام آدمی پارٹی کی پالیسیوں پر ہونا چاہئے تھا لیکن گورنر سے تنازعہ مول کر عام آدمی پارٹی نے ترقیات کا مجاز کمزور کردیا ہے ۔ صدرجمہوریہ کو اس تنازعہ کا پرامن حل نکالنا چاہئے ۔ اس پس منظر میں حکومت دہلی اور گورنر کو مل بیٹھ کر اپنا اپنا موقف واضح کرنا ضروری ہے تاکہ دستوری عہدہ کی لاج رکھی جاسکے۔