حیدرآباد۔7 ستمبر (سیاست نیوز) چیف منسٹر کے چندر شیکھر رائو نے اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لیے اقامتی اسکولس کی منفرد اسکیم کا آغاز کیا تاکہ اقلیتوں میں پسماندگی کا خاتمہ ہو۔ ملک کی کسی بھی ریاست میں اس طرح کی منفرد اسکیم شروع نہیں کی گئی لیکن چیف منسٹر کے اس منصوبے پر کامیابی سے عمل آوری کے بجائے عہدیدار اسے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ریاست میں پہلے مرحلہ میں 71 اقامتی اسکولس قائم کئے گئے تھے جبکہ دوسرے مرحلہ میں اقامتی اسکولس کی تعداد 206 تک پہنچ گئی جن میں 102 لڑکے اور 104 لڑکیوں کے اقامتی اسکولس ہیں۔ حکومت نے بہتر انتظامات کے لیے زائد بجٹ بھی مختص کیا۔ اقامتی اسکولوں میں تمام بنیادی سہولتوں کے ساتھ مفت تعلیم کا انتظام کیا گیا ہے۔ طلبہ کو کارپوریٹ اداروں کی طرح عصری سہولتوں کی فراہمی اور قابل اور ماہر اساتذہ کے ذریعہ تعلیم کا انتظام کرنا چیف منسٹر کا مقصد ہے جس کی اقلیتوں کی جانب سے بھرپور ستائش کی جارہی ہے۔ چیف منسٹر کی اس نیک نیتی پر شبہ کی کوئی گنجائش نہیں لیکن افسوس اس اسکیم کی آڑ میں عہدیدار اپنے مالی مفادات کی تکمیل کررہے ہیں۔ اقامتی اسکولوں میں ابھی تک مستقل طور پر ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ اسٹاف کے تقررات نہیں کیے گئے اور آئوٹ سورسنگ بنیاد پر تدریسی اور غیر تدریسی عملے کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ پہلے اور دوسرے مرحلہ میں آئوٹ سورسنگ ملازمین کے تقررات کے سلسلہ میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں کی شکایات ملی ہیں۔ اقلیتی اقامتی اسکول سوسائٹی سے وابستہ عہدیدار بتایا جاتا ہے کہ آپس میں رنگ کی طرح کام کررہے ہیں اور ایک دوسرے کو فائدہ پہنچارہے ہیں۔ سوسائٹی سے وابستہ افراد نے آئوٹ سورسنگ ایجنسی قائم کرلی ہے اور بھاری رقومات حاصل کرتے ہوئے تقررات عمل میں لائے جارہے ہیں۔ کئی ایک امیدواروں نے تقررات کے سلسلہ میں سوسائٹی سے وابستہ افراد کی جانب سے رقومات طلب کرنے کی شکایت کی ہے۔ اگرچہ تقررات کا عمل ضلع کلکٹرس کے ذریعہ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن ڈسٹرکٹ میناریٹی ویلفیر آفیسر کی سطح پر ناموں کو قطعیت دی جارہی ہے اور انہیں ضلع کلکٹرس کو روانہ کردیا گیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ ابھی بھی آئوٹ سورسنگ ملازمین کی تقررات کے سلسلہ میں بڑی تعداد میں خواہشمند امیدوار روزانہ سوسائٹی کے دفتر واقع بنجارہ ہلز کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تقررات کے علاوہ اسکولوں کی عمارتوں کے انتخاب، ماہانہ کرائے کے تعین اور اسکولوں میں انفراسٹرکچر کی خریداری کے سلسلہ میں بھی بڑے پیمانے پر دھاندلیاں کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں اعلی عہدیداروں کو شکایات موصول ہوئیں لیکن انہوں نے نامعلوم وجوہات کے سبب تحقیقات یا پھر کارروائی سے گریز کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں میں ایسے بااثر افراد ملوث ہیں جن کے خلاف کارروائی نہیں کی جاسکتی۔ حکومت اسکولوں میں سہولتوں کی فراہمی کے لیے کروڑہا روپئے بجٹ جاری کررہی ہے لیکن اس میں دھاندلیوں نے حکومت کی اسکیم کو نقصان پہنچایا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ تدریسی اسٹاف کے تقرر کے سلسلے میں بدعنوانیوں کے سبب معیار کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جبکہ غیر تدریسی اسٹاف میں بھی من مانی تقررات کا سلسلہ جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ عہدے کے اعتبار سے رقم کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور رقم حاصل کرنے کے لیے بعض درمیانی افراد کی خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ اقامتی اسکول سوسائٹی کی سرگرمیوں کے بارے میں چیف منسٹر کے دفتر تک شکایات پہنچنے کی اطلاعات ملی ہیں اور چیف منسٹر کے دفتر نے اس سلسلہ میں اپنے طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سوسائٹی سے وابستہ افراد یا ان کے رشتہ دار ان سرگرمیوں میں اہم رول ادا کررہے ہیں۔ تلنگانہ پبلک سرویس کمیشن کی جانب سے اقامتی اسکولوں میں تدریسی اسٹاف کے تقرر کے سلسلہ میں اعلامیہ جاری کیا گیا تھا لیکن ابھی تک تقررات عمل میں نہیں لائے گئے۔ جبکہ غیر تدریسی اسٹاف کے تقررات کے سلسلہ میں کوئی پہل نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ آئوٹ سورسنگ تقررات اور اسکولوں کے انفراسٹرکچر کی خریداری میں بھاری اسکام ہوا ہے۔ لیکن اعلی عہدیدار اس اسکام پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں۔ اگر غیر جانبدار ادارے سے سوسائٹی کے معاملات کی جانچ کی جائے تو اقربا پروری، کرپشن اور بے قاعدگیوں کے کئی سنگین معاملات آشکار ہوں گے۔