چیف منسٹرس ریلیف فنڈ پر عوام سے کئی شکایتیں

ہاسپٹلس اور بروکرس کے درمیان ملی بھگت ، عوام کمیشن کی ادائیگی پر مجبور
حیدرآباد ۔ 2 ۔  نومبر  (سیاست نیوز) حکومت کی اسکیمات میں بے قاعدگیاں اور درمیانی افراد کا رول کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ٹھیک اسی طرح چیف منسٹرس ریلیف فنڈ کے معاملہ میں عوام کی جانب سے کئی شکایات موصول ہورہی ہیں۔ اس اسکام میں کئی ہاسپٹلس اور بروکرس کے درمیان ملی بھگت پائی جاتی ہے اور بعض عوامی نمائندوں کے تعاون سے کمیشن پر غریبوں کو امداد فراہم کرنے کا جھانسہ دیا جارہا ہے ۔ چیف منسٹرس ریلیف فنڈ کے ذریعہ مختلف امراض یا ناگہانی واقعات کے متاثرین کو امداد دی جاتی ہے۔ عوامی نمائندوں کی سفارش پر یہ رقم منظور کی جاتی ہے۔ تاہم حالیہ عرصہ میں امداد حاصل کرنے کیلئے عوام کو کمیشن کی ادائیگی پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے ۔ چیف منسٹر ریلیف فنڈ کے امور کی تکمیل کرنے والے سرکاری شعبہ سے وابستہ افراد بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بروکرس سے ملے ہوئے ہیں۔ لہذا جب بھی کوئی شخص راست طور پر ان سے رجوع ہوتا ہے تو انہیں بروکر کی نشاندہی کردی جاتی ہے۔ عام طور پر اس فنڈ کے تحت 50 تا 1 لاکھ روپئے منظور کئے جاتے ہیں اور چیف منسٹر کی شخصی دلچسپی کے نتیجہ میں یہ رقم دو لاکھ تک بھی ہوسکتی ہے۔ علاج سے متعلق ہاسپٹل کے تمام دستاویزات کے ساتھ فائل چیف منسٹر کے دفتر میں داخل کی جاتی ہے اور اس کے لئے کسی عوامی نمائندہ کی سفارش کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاکر ارکان اسمبلی اور کونسل سے قربت رکھنے والے بعض افراد نے باقاعدہ اسے اپنے گزارے کا ذریعہ بنالیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ مختلف کارپوریٹ ہاسپٹلس سے ان کی ملی بھگت ہے اور وہ وقتاً فوقتاً ہاسپٹلس کا دورہ کرتے ہوئے غریب اور مستحق مریضوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔ غریب افراد کو سرکاری امداد دلانے کا لالچ دے کر ان سے علاج کی تمام تفصیلات حاصل کرلی جاتی ہے ۔ زائد رقم کی منظوری کیلئے ہاسپٹلس کی جانب سے بڑھا چڑھاکر بلز تیار کئے جاتے ہیں تاکہ رقم کی منظوری کی صورتحال میں ہاسپٹل اور بروکر دونوں کو فائدہ ہوسکے۔ کئی ہاسپٹلس میں اس طرح کی خدمات فراہم کرنے والے افراد باقاعدہ طور پر موجود ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کارروائی سے قبل 25 تا 50 فیصد کمیشن کا معاہدہ کیا جاتا ہے اور امداد کی منظوری کے ساتھ ہی درخواست گزار کو وعدہ کے مطابق رقم حوالے کرنی پڑتی ہے۔ اس طرح غریب اور مستحق افراد کیلئے چیف منسٹر کی جانب سے منظور کئے جانے والے فنڈ میں بھی بے قاعدگیاں کی جارہی ہیں اور مکمل رقم مستحق افراد تک نہیں پہنچ پا رہی ہے۔ عوام نے شکایت کی کہ زائد کمیشن کی عدم ادائیگی کی صورت میں کارروائی سے انکار کیا جارہا ہے اور سرکاری عہدیدار بھی راست طور پر فائل قبول کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ درمیانی افراد کی بعض عوامی نمائندوں سے ملی بھگت ہے اور بتایا جاتا ہے کہ کمیشن کا کچھ حصہ انہیں بھی دیا جاتا ہے۔ چیف منسٹر کو چاہئے کہ اس اسکیم میں مکمل شفافیت پیدا کرنے اور حقیقی مستحقین کو منظورہ ساری رقم پہنچانے کیلئے سخت گیر قدم اٹھائیں۔ جب تک درمیانی افراد کا رول ختم نہیں ہوگا ، اس وقت تک اسکیم میں شفافیت کی توقع نہیں کی جاسکتی۔