چیف جسٹس آف انڈیا کو روسٹر پر مکمل اختیار

عدلیہ کی اہمیت کم ہونے کا عوام کا تصور خطرناک ، مقدمات مختص کرنے کی اتھاریٹی، سپریم کورٹ کا فیصلہ
نئی دہلی۔6 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) سپریم کورٹ آف انڈیا نے آج یہ موقف ظاہر کیا کہ چیف جسٹس آف انڈیا روسٹر پر مکمل اختیار رکھتے ہیں اور یہ ان کا اختیاری تمیزی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی مختلف بنچوں کو مقدمات مختص کریں۔ جسٹس اے کے سیکری اور جسٹس اشوک بھوشن پر مشتمل ایک بنچ نے اپنے علیحدہ علیحدہ فیصلوں میں جو ایک دوسرے سے ہم آہنگ تھے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کا کردار مساوی افراد کے درمیان اولین شخص ہے۔ انہیں عدلیہ کے انتظامیہ میں قیادت کا کردار ادا کرنے اور استعمال کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔ اس میں مقدمات مختص کرنا بھی شامل ہے۔ یہ فیصلہ سابق وزیر قانون شانتی بھوشن کی جانب سے موجودہ روسٹر کے عمل کو چیلنج کرنے کی درخواست پر منظر عام پر آیا ہے۔ اس درخواست میں سپریم کورٹ میں مقدمات مختص کرنے کے روسٹر سسٹم کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے تحت چیف جسٹس آف انڈیا مختلف بنچوں کو مختلف مقدمات کی سماعت کا اختیار عطا کرتے تھے۔ 5 ججس پر مشتمل سپریم کورٹ کی دستوری بنچ اور 3 ججس پر مشتمل بنچ پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو روسٹر پر مکمل اختیار حاصل ہے۔ آج کے اپنے فیصلے میں جسٹس سیکری نے کہا کہ جہاں تک چیف جسٹس آف انڈیا کے روسٹر کے ماسٹر کا کردار ادا کرنے کا تعلق ہے، یہ کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ روسٹر کے ماسٹر ہیں اور انہیں سپریم کورٹ کی مختلف بنچوں کو مختلف مقدمات کی سماعت کا اختیار عطا کرنے کا اختیار ہے۔ جسٹس سیکری کی رائے سے اتفاق کرتے ہوئے جسٹس بھوشن نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو مقدمات مختص کرنے کا اور ان کی سماعت کے لیے بنچوں کو نامزد کرنے کا اختیار تمیزی حاصل ہے۔ جسٹس بھوشن نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ کی روایات آزمودہ اور برگزیدہ ہیں۔ ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاسکتی۔ جسٹس سیکری نے کہا کہ یہ دلیل تسلیم کرنا مشکل ہوگا کہ چیف جسٹس آف انڈیا سپریم کورٹ کے قواعد کے تحت ایک ایسا کالجیم ہے جو 5 انتہائی سینئر ججس پر مشتمل ہو اور مقدمات کی سماعت مختلف بنچوں کو مختص کرتا ہو۔ عوام کے ذہنوں میں عدلیہ کے خاتمہ کا جو تصور ہے یہ عدالتی نظام کے لیے سب سے بڑا خطرا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہونے کی حیثیت سے جسٹس آف انڈیا عدلیہ کے ترجمان اور قاعد ہیں۔ بنچ نے کہا کہ کوئی بھی نظام بے عیب نہیں ہوتا، ہمیشہ بہتری کا امکان موجود رہتا ہے۔ عدلیہ کی کارکردگی میں بھی یہی وصول نافذ ہوتا ہے۔ اپنی درخواست مفاد عامہ میں بھوشن نے الزام عائد کیا تھا کہ روسٹر کا ماسٹر بغیر رہنمائی اور بغیر مشاورت کے اپنے اختیارات تمیزی کا استعمال کرتے ہوئے جانبدارانہ طور پر منتخبہ ججس پر مشتمل بنچوں کو مقدمات کی سماعت مختص نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ مخصوص ججوں کو مقدمات کی سماعت کی اجازت دینے کا چیف جسٹس آف انڈیا کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن دستوری بنچ میں ان کے ادعا کو مسترد کردیا۔