مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ
انسان جسم و روح سے مرکب ہے، جسم مادہ ہے اور خاک سے بنا ہے اس کو ایک دن خاک میں ملنا ہے، لیکن روح امر رب ہے اس کو فنا نہیں ہے۔ اللہ سبحانہٗ نے اس مادی دنیا میں مادہ یعنی جسم کی صحت اور اس کے نشوونما کے لئے اسباب مہیا فرمائے ہیں اور اس کرۂ ارض میں سارے سامان زندگی موجود کردیئے ہیں۔ اسی طرح روح کی زندگی اور اس کے نشوونما اور اس میں ترقی کے لئے روحانی اسباب بھی اللہ سبحانہ نے بنائے ہیں۔ ان روحانی اسباب کی تعلیم کے لئے اس نے ہر دَور میں پیغمبر بھیجے ہیں اور ان پر وحی نازل فرمائی ہے، ان میں آخری پیغمبر سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور آخری کتاب ہدایت قرآن مجید ہے۔ اللہ کے بھیجے ہوئے تمام پیغمبروں اور اس کی نازل کردہ تمام کتابوں پر ایمان رکھنے کے ساتھ آخری پیغمبرﷺ اور آخری کتاب قرآن مجید پر ایمان رکھے بغیر کوئی انسان نہ اپنے خالق کو پاسکتا ہے، نہ مقصد حیات میں کامیاب ہوسکتا ہے اور نہ ہی آخرت کی سرفرازی اس کا مقدر بن سکتی ہے۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں پر جو عبادات فرض کی ہیں وہ دراصل روح کی طلب ہیں، روحانیت کی ترقی ان کے بغیر ممکن نہیں۔ یوں تو زندگی کے سارے شعبوں میں اسلام مطلوب ہے، لیکن عبادات کی اہمیت روحانی مدارج میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ اللہ سبحانہ کی عظمت و مرتبت، اس کی کبریائی و سلطنت، اس کی طاقت وقوت کائنات کے ذرہ ذرہ سے عیاں ہے، اللہ سبحانہ اپنی ذات و صفات میں یکتا ہے، اس کے عظیم انعامات اور احسانات ساری کائنات اور کائنات میں رہنے بسنے والی مخلوقات اور خاص طور پر انسانوں پر ہیں، ان کااحاطہ نہ کسی سے ممکن ہے، نہ ہی زندگی تمام سجدہ ریز رہ کر اس کا حق شکر کسی سے ادا ہوسکتا ہے۔ ان کا حق یہی ہے کہ ایک انسان اس کی بندگی اور عبادت بجا لاکر اپنی مسکنت و عاجزی، عبدیت و بندگی، مجبوری و محتاجی، محبت و شیفتگی کا اظہار کرے، اس کا قرب پانے اور اس کی رحمت و رضا حاصل کرنے اور قلب و روح کو حیات و زندگی بخشنے اور اس کے لئے نور و سرور کا سامان کرنے کے لئے احکام اسلام پر عمل کرنے اور عبادات کے اہتمام سے زیادہ اور کوئی مؤثر ذریعہ نہیں ہے۔
عبادات میں نماز کو تقدم حاصل ہے یہ ایسی عبادت ہے جو ہر بندۂ مسلم پر فرض ہے خواہ وہ امیر ہو کہ غریب، بادشاہ ہو کہ فقیر۔ اور عبادات جیسے زکوٰۃ و حج وغیرہ مالی استطاعت پر موقوف ہیں۔ تمام عبادات میں نماز کو ایک خصوصی امتیاز حاصل ہے، نفس کی پاکیزگی اور اس کے تزکیہ و تربیت میں نماز کا بڑا رول ہے، نماز میںخالق وحدہ لا شریک لہ کی عظمت و جلال اور اس کی بڑائی و کبریائی کے ساتھ اپنی بندگی و عاجزی اور مسکنت کا استحضار بندگی کو عرو ج کی منزل عطا کرتا ہے۔ نماز میں صرف اعضاء و جوارح ہی سے فدویت وبندگی کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ نماز کے اذکار و اَوراد زبان سے ادا کرتے ہوئے بھی اس کا اظہار ہوتا ہے۔ پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے معبود برحق کی طرف توجہ کرتے ہوئے اپنی حاجات و ضروریات بھی اس کی بارگاہِ عالی وقار میں شان عاجزی و بندگی کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں اور اسی سے مدد مانگی جاتی ہے۔ روح کی اصل طلب دیدار الٰہی ہے، نماز کے ذریعہ روح کی استعداد وصلاحیت ترقی کے منازل طے کرتی ہے تب وہ نماز مومن کی معراج بنتی ہے، ایسی نماز قلب و روح کو تسکین بخشتی ہے اور ایسے قلب پر سکینت کا نزول ہوتا ہے اور وہ تجلیات الٰہیہ کے نزول کا مسکن بنتا ہے، پھر آخرت میں دیدار الٰہی کی نعمت اس کا نصیبہ بنتی ہے۔ الغرض نماز انوار الٰہیہ کا ایک نورانی سمندر ہے، خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے والا گویا اس نورانی سمندر میں ڈوب کر نکلتا ہے۔ حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نماز کا ذکر فرمارہے تھے کہ ’’نماز کو جو کوئی اس کے ارکان و آداب کی حفاظت کے ساتھ ادا کرے تو وہ نماز قیامت کے دن اس کے لئے نور ہوگی اور دلیل و برہان ہوگی اور اس کے لئے نجا ت کا وسیلہ بنے گی‘‘۔ حق بندگی تو یہ تھا کہ زندگی کے سارے اوقات نماز میں بسر کئے جاتے، اس کے مقاصد و منافع تو یہی تقاضہ کرتے ہیں، لیکن اللہ سبحانہ نے اپنی رحمت و مہربانی سے شب و روز میں صرف پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں اور ان پانچ وقت کی نمازوں پر پچاس نمازوں کے اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ نماز کے اس روحانی پس منظر کو سامنے رکھ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوجاتی ہے کہ نماز جیسی عبادت کا کسی اور مذہب کی عبادت سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔
بی جے پی کے لیڈر مرلی منوہر جوشی نے نماز کو یوگا سے تعبیر کیا ہے اور نعوذ باللہ پیغمبر اسلامﷺ کو عظیم یوگی قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بیان غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یوگا کسی باطل مذہب میں اہمیت رکھتا ہو تو اس سے کوئی بحث نہیں، وہ اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے یوگا کرتے ہوں تو وہ اس کے ذمہ دار ہیں، لیکن ان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اسلام کی ایک عظیم عبادت نماز کو یوگا قرار دیں۔ نماز سے قبل طہارت و وضو کی پابندی، مسواک سے دہن کی صفائی وغیرہ جیسی ہدایات جو ظاہری پاکی کے لئے ضروری ہیں، اس کے اہتمام کے ساتھ نماز ادا کی جاتی ہے، جب کہ یوگا وغیرہ میں اس کا دُور دُور تک کوئی تصور نہیں، بلکہ یہ ہوسکتا ہے کہ خوابگاہ سے نکل کر یوگا کرنے والے سیدھے یوگا میں مصروف ہوجاتے ہیں، جس سے ان کا مقصود جسمانی ورزش تو ہوسکتا ہے، لیکن اس کو عبادت کہا جائے کتنا بڑا ظلم ہے، جب کہ انسانوں کے پیدا کرنیوالے نے اس جیسے طریقہ کو عبادت نہیں کہا ہے۔ البتہ نماز سے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ نماز و عبادات سے مقصود تو رضاء الٰہی ہے، قلب و روح کی تسکین اور آخرت کی اس میں نجات ہے۔ ضمناً صحت جسمانی کے فوائد حاصل ہوجاتے ہیں تو یہ اللہ کی رحمت ہے، لیکن اگر کوئی خالص اسی جذبہ سے نماز و عبادات کا اہتمام کرے تو وہ اس کے حق میں نماز و عبادت نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ نفع حاصل ہوسکیں گے جو نماز کا مقصود اصلی ہیں۔ اس تناظر میں یوگا کو نماز سے جوڑنا ’’چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک‘‘ کے مصداق ہے۔
ایمان و اسلام کا تقاضہ یہ ہے کہ نماز و عبادات کو خالص رضائے الٰہی کے لئے ادا کیا جائے اور غیر اسلامی طرز یوگا سے اپنے آپ کو بچایا جائے۔ یوگا چونکہ باطل مذاہب میں عبادات کا درجہ رکھتا ہے، اس لئے ورزش ہی کی غرض سے کیوں نہ ہو اس کا اختیار کرنا شرعاً ناجائز ہے۔ اسلام نے ورزشی کھیل کود کی کچھ حدودوقیود کے ساتھ حسب ضرورت و حسب خواہش اجازت دی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس کو اپنے اوپر مسلط نہ کرلیا جائے اور مقصد زندگی نہ بنا لیا جائے، کیونکہ اسلام میں وقت کی بڑی اہمیت ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے نہ کہ لایعنی مشاغل میں اس کو کھودیا جائے۔
اس وقت معاشرہ میں مشرکانہ اقدار فروغ پارہے ہیںاور مسلمان لاعلمی میں اس کا حصہ بنتے جارہے ہیں، اسلامی تہذیب و تمدن رخصت ہوتا جارہا ہے، ایسے میں اہل ایمان کی غیرت و حمیت پر سوال لگتا جارہا ہے، اس پر سنجیدگی سے توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔