چھینک کیوں آتی ہے…؟

بچو!چھینک آنے کا سائنسی مطلب سانس کی نالی میں جسے ہم حنجرہ یاTRACEA کہتے ہیں بلغم یا دُھول وغیرہ آجانے سے جسم میں یکایک جھٹکے کے ساتھ لرزش اور ہلکی سی گُدگُدی ہوتی ہے تب اس حالت کو دُور کرنے کیلئے ہوا کا ایک تیز جُھونکا یا جَھٹکا جسم کے اندر سے سانس کی نالی کے ذریعہ باہر نکلتا ہے اور تب ہی ہم چھینک پڑتے ہیں اور ہماری یہ چھینک پورے جسم کو ہلا کر رکھ دیتی ہے اور اس چھینک کے بعد ہم کچھ تازگی اور سکون سا محسوس کرتے ہیں کیونکہ سانس کی نالی سے وہ تحریک یا ارتعاش دُور ہو جاتا ہے۔
آپ نے خود غور کیا ہوگا کہ چھینک کے وقت ہماری آنکھیں ایک جَھٹکے کے ساتھ بند ہوجاتی ہیں اور ہم کوشش کے باوجود اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھ سکتے۔
چھینک کی رفتار : آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ چھینک کے وقت سانس کی نالی سے باہر نکلنے والی ہوا160 میل فی گھنٹہ کے برابر ہوتی ہے اور اسی لئے اس ہوا کے جھونکے سے جسم کو جھٹکا لگتا ہے اور اس کے ساتھ ہی ہماری آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔
چھینک کے ذرّات:  الکٹرانک مائیکرو اسکوپ ( برقی فوٹو گرافی ) کے ذریعہ چھینک کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوا کہ ایک سکنڈ میں گیارہ لاکھ ذرّاتPARTICALS ہوا میں خارج ہوتے ہیں۔ محققین نے معلوم کیا کہ ان ذرّات میں 19000 ( اُنیس ہزار) جراثیمی نو آبادیات BECTERIAL COLONIES قائم ہوسکنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور اس کے ذرّات 13تا30فیٹ فاصلے تک پھیلتے ہیں اور نصف گھنٹہ تک فضاء میں تیرتے رہتے ہیں۔
چھینک کے خطرہ سے بچنے کا طریقہ : رضاکارانہ طور پر چھینک کے رُخ پر قابو رکھنے کو چھینک سے متعلق کوشش کرنا چاہیے تاکہ امراض کے خلاف جنگ میں اہم اورمناسب ہتھیار کا کام دے سکے۔