چھوٹا ووٹ، بڑا ووٹ لائے گا تبدیلی

کون ہوگا کامیاب فیصلہ کریں گے عوام، ملی مفادات کا تحفظ کرنے والے امیدوار ہوں گے کامیاب

حیدرآباد ۔ 28 اپریل ۔ تلنگانہ میں انتخابی مہم کا اختتام عمل میں آ چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں نے انتخابی جلسوں، روڈ شوز اور ریالیوں کے ذریعہ عوام کی تائید حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرلی۔ جھوٹے سچے وعدے کئے گئے۔ ایک دوسرے کو عوام کے سامنے جھوٹا، مفاد پرست، خودغرض ظاہر کرنے کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی لیکن امیدواروں یا جماعتوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود وہی ہوگا جو منظور خدا ہوگا۔ ایسا لگتا ہیکہ تلنگانہ کے انتخابات صرف حیدرآباد میں ہی ہورہے ہیں بالخصوص حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں ایک ایسی سیاسی جنگ شروع ہوچکی ہے جس کا فیصلہ 16 مئی کو ہوجائے گا۔ عوام ان انتخابات کے بارے میں دلچسپ تبصرے کرنے لگے ہیں۔ ان کا کہنا ہیکہ یاقوت پورہ اور چندرائن گٹہ میں دوہرے جھنڈوں کا مقابلہ ہے اسی طرح کچھ لوگ یہ بھی کہنے لگے ہیں کہ اس مرتبہ چھوٹے ووٹ اور بڑے ووٹ کا استعمال کیا جائے گا۔ چھوٹے اور بڑے ووٹ کی وضاحت کرتے ہوئے لوگوں کا کہنا ہیکہ چھوٹا ووٹ اسمبلی کیلئے اور بڑا ووٹ پارلیمنٹ کیلئے ہوگا۔ اس ضمن میں مزید وضاحت پر بعض لوگوں نے بتایا کہ بڑا ووٹ مقامی جماعت کو جائے گا اور چھوٹا ووٹ حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ میں ایم بی ٹی امیدوار فرحت خاں کے حق میں استعمال ہوگا۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہیکہ یہ حکمت عملی سیاستدانوں کو یہ احساس دلانے کیلئے اختیار کی جارہی ہے کہ ووٹ اسے حاصل ہوگا جو عوام کا حقیقی خدمت گذار ہوگا۔ ووٹ اسے ہی ملیں گے جو ملت کا حقیقی خادم ہوگا جسے شخصی مفادات کی بجائے ملت کی فکر لاحق ہوگی۔ عوام کے موڈ سے پتہ چلتا ہیکہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں۔ ملت میں اتحاد کے خواہاں ہیں۔ دوسری طرف نامپلی میں فیروزخان اور ان کے حامیوں کا کہنا ہیکہ آج ان پر بی جے پی کے ایجنٹ ہونے کے جو الزامات عائد کئے جارہے ہیں اور جو مقامی جماعت ان پر الزامات عائد کررہی ہے وہ خود ایک طرح سے بی جے پی اور نریندر مودی کے مفادات کی تکمیل کررہی ہے۔ اس سلسلہ میں حلقہ پارلیمان سکندرآباد سب سے اچھی مثال ہے جہاں کانگریس کے انجن کمار یادو کا مقابلہ بی جے پی کے سینئر لیڈر بنڈارو دتاتریہ سے ہے لیکن مقامی جماعت نے اس حلقہ سے بھی اپنا امیدوار میدان میں اتارا ہے۔ ان حالات میں عوام خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آخر مقامی جماعت نے اپنے امیدوار کو انتخابی میدان میں اتار کر بی جے پی امیدوار کی کامیابی کیلئے راہ ہموار کیوں کردی۔ اگر وہ مودی اور بی جے پی کو اقتدار سے روکنے میں سنجیدہ ہو تو ہرگز ہرگز اپنے امیدوار کو حلقہ سکندرآباد سے نہ ٹھہراتی۔ فیروزخاں کے حامیوں کا یہ بھی کہنا ہیکہ حلقہ اسمبلی محبوب نگر سے ٹی آر ایس امیدوار کی شکست میں بھی مقامی جماعت نے مذموم رول ادا کیا۔ بات بات پر ملی مفادات کے تحفظ کی بات کرنے والوں نے آخر کس بنیاد پر ابراہیم کی شکست کو یقینی بنایا؟ اسی طرح نظام آباد میں بھی اپنے امیدوار کے ذریعہ بی جے پی امیدوار کی کامیابی کی راہ ہموار کی گئی۔ کریم نگر میں بھی مقامی جماعت نے جو دلتوں کی ہمدردی کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتی، کانگریس کے دلت امیدوار کے خلاف اعلیٰ ذات کے امیدواروں کے امکانات میں اضافہ کیا۔ حلقہ اسمبلی عنبرپیٹ میں جہاں صدر تلنگانہ بی جے پی مسٹر جی کشن ریڈی مقابلہ کررہے ہیں، کانگریس قائد وی ہنمنت راؤ انہیں بآسانی شکست کی ہزیمت سے دوچار کرسکتے تھے لیکن مقامی جماعت نے ایک دلت نوجوان کو میدان میں اتارا فائدہ کس کا ہوگا؟ بی جے پی کے کشن ریڈی کا فائدہ ہوگا؟ اس کیلئے کون ذمہ دار ہوگا؟ اس کا جواب 30 اپریل کو عوام اپنے ووٹ کے ذریعہ دے سکتے ہیں۔ اسی دوران حلقہ اسمبلی یاقوت پورہ اور چندرائن گٹہ میں عام تاثر یہی ہیکہ ان دونوں حلقوں میں عوام تہیہ کرلیں تو ایک بہت بڑی مثبت تبدیلی آ سکتی ہے کیونکہ حلقہ اسمبلی کاروان ملک پیٹ میں ایم بی ٹی مقابلہ نہ کرنے کے باعث مقامی جماعت کو بآسانی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔ ان حالات میں چندرائن گٹہ اور یاقوت پورہ میں بڑا ووٹ ایم پی کیلئے اور چھوٹا ووٹ ایم بی ٹی امیدواروں کے حق میں استعمال ہو تو ایک نیا انقلاب برپا ہوگا اور کسی کو بھی ملی مفادات پر شخصی مفادات کو ترجیح دینے کی ہمت و جرأت نہ ہوسکے گی۔