چھتری کی کہانی

گرمی کے موسم میں ہم چھتری لگا کر دھوپ سے بچتے ہیں۔ چھتری کو لوگ چھاتا بھی کہتے ہیں ۔ انگریزی زبان میں اسے امبریلا کہا جاتا ہے ۔ یہ اطالوی زبان سے لیا گیا ہے ۔چھتری کی ایجاد کب ہوئی اور کس طرح ہوئی اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا لیکن سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پرانے زمانے میں انسان درخت کے نیچے کھڑے ہو کر دھوپ اور بارش سے اپنے کو بچاتا رہتا تھا ۔
پھر انسان کو درخت کی طرح کوئی چھتری بنانے کا خیال آیا ہوگا ۔ اور اس طرح پہلی چھتری چھوٹی پتیوں اور گھاس پھوس کا ہی بنایا گیا ہوگا ۔ بعد میں چھاتے بڑی پتیوں اور پھر بانس کے بنائے گئے ہوں گے کیونکہ تاریخ کی کتابوں میں بانس کے چھاتے کا ہی ذکر زیادہ موجود ہے ۔ اس لئے بانس کے چھاتے کو سب سے پرانا چھاتا کہا جاسکتا ہے ۔چین میں ڈھائی ہزار سال پہلے راجا اور فوج میں سپہ سالاروں کے اوپر چھاتے کی تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں لیکن کپڑوں کے چھاتوں کا ذکر نہیں ملتا ۔ اب چھاتے کس قدر بدل چکے ہیں ۔ آج فولڈنگ چھتری کا رواج کس قدر عام ہوچکا ہے ۔ برطانیہ میں جب چھاتوں کا رواج شروع ہوا تو اسے صرف عورتیں ہی استعمال کرتی تھیں ۔ سب سے بڑی چھتری ایک برما کے راجاؤں کے پاس تھی ، اس قدر شوقین تھے کہ جب وہ سفر کرتے تو اپنے اوپر ایک ساتھ چھتریاں لگوانے کے بعد چلتے تھے ۔ یہ چھتریاں بھی عام چھتریوں کی طرح تھیں لیکن ان چھتریوں میں ہیرے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے ۔ اس طرح چھاتے کا استعمال ہندوستان میں ہی نہیں ہوتا بلکہ چین ‘ ترکی ‘ یونان ‘ فارس میں بھی استعمال کیا جاتا تھا ۔ یہاں تک مصر اور یونان کی پانچ ہزار سال پرانی عمارتوں میں چھاتے سے ملتے جلتے نشانات پائے گئے ہیں ۔ اس زمانے میں بھی راجا اور نواب دھوپ اور بارش سے بچنے کیلئے چھاتا لگاتے تھے ۔