غیر مسلم بھائیوں کی اخبار سیاست کو اطلاع ، وقف بورڈ میں اسٹاف کی کمی موقوفہ اراضیات کی تباہی کی اصل وجہ
حیدرآباد ۔ 7 ۔ نومبر : ( نمائندہ خصوصی ) : شہر اور اطراف و اکناف کے علاقوں میں اوقافی جائیدادوں کا وجود بڑی تیزی سے مٹ رہا ہے ۔ چاہے وہ مسجد کی اراضی ہو یا پھر درگاہوں کے تحت موقوفہ جائیدادوں کا معاملہ ، دیکھتے ہی دیکھتے ناجائز معاملتیں طئے پا رہی ہیں جس کی وجہ سے کروڑہا روپئے مالیتی موقوفہ اراضیات بلند و بالا رہائشی کمرشیل کامپلکس سے لے کر کچے اور پکے آر سی سی مکانات تعمیر ہوگئے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ آخر وقف بورڈ کے ہاتھوں سے قیمتی اراضیات کس طرح نکلتی جارہی ہیں ؟ وقف بورڈ کی غفلت کے باعث ہی آج چھتری ناکہ پولیس اسٹیشن کے روبرو حضرت فیروز شاہ بابا کی درگاہ شریف واقع ہے جس کے تحت دیڑھ ایکڑ اراضی موقوفہ اراضی تھی مگر ناجائز قابضین مکان تعمیر کرچکے ہیں ۔ اس درگاہ کے تحت جملہ دیڑھ ایکڑ اراضی پر مکمل طور پر قبضہ ہوچکا ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ اب یہ ناجائز قابضین باقی بچی ہوئی اراضیات کو بھی علی الاعلان فروخت کیا جارہا ہے ۔ ایک صاحب نے تو باضابطہ اپنا فون نمبر دیتے ہوئے یہاں پر Plot For Sale تحریر کیا ہے ۔ ایک غیر مسلم مقامی شخص نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر کو بتایا کہ یہاں پر زیادہ تر افراد نے فرضی کاغذات تیار کرواتے ہوئے رجسٹری بھی کروالی ہے ۔ تقریبا 400 سالہ قدیم اس درگاہ شریف کے اطراف و اکناف لوگوں نے مکانات تعمیر کرتے ہوئے چاروں طرف سے درگاہ شریف کو محصور کردیا ہے ۔ درگاہ شریف تک پہنچنے کے لیے صرف 3 فٹ کا راستہ چھوڑا گیا ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ چھتری ناکہ پولیس اسٹیشن بالکل قریب میں واقع ہے ۔ اس کے باوجود برسوں سے موقوفہ اراضیات پر ناجائز تعمیرات جاری ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وقف بورڈ کی جانب سے ہر علاقے میں ایک انسپکٹر تعینات کیا جاتا ہے ۔ آخر یہ انسپکٹرس کیا کررہے ہیں ؟ آخر کس طرح یہ لوگ برسوں سے ان اراضیات پر قبضہ کرتے ہوئے مکانات تعمیر کررہے ہیں۔وقف بورڈ کے ایک عہدیدارمتعلقہ اسٹاف اور ملازمین کی کمی کا بہانا بتایا ۔ لہذا ارباب مجاز کو چاہئے کہ ملازمین اور متعلقہ عہدیدار کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے تو یہ وقف جائیداد کے حق میں مفید ثابت ہوگا ۔ واضح رہے کہ گذشتہ دنوں اسی علاقے سے قریب گولی پورہ میں موقوفہ اراضی پر قبضہ کے لیے درگاہ شریف کو منہدم کردیا گیا تھا جس کی خبر روزنامہ سیاست میں آج شائع ہوچکی ہے ۔۔