یہ ان دنوں کی بات ہے جب چڑی مار پرندوں میں سب سے اچھا شکار طوطے کا سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جنگل کے طوطوں میں خوف و ہراس پھیلاہوا تھا، جو جہاں رہتا چڑی مار کو دیکھ کر جنگل چھوڑ دیتا۔ پھر بھی چڑی مار طوطوں کی تاک میں خاک چھانتے پھرتے تھے۔ اس آفت کو دور کرنے کیلئے ایک دن تمام طوطوں نے میٹنگ کی لیکن کسی سے مسئلہ کا حل نہیں نکل سکا۔ بہت غور و فکر کے بعد ایک نے کہا یہ تو ہم جانتے ہیں کہ انسانوں میں سب کے سب چڑی مار نہیں ہوتے، کتنے ایسے بھی لوگ ہیں جو اپنی محنت سے کھیتی باڑی کرتے ہیں اور غلہ پیدا کرکے گزر بسر کرتے ہیں۔ ان لوگوں میں رحم کا جذبہ یقیناً ہوتا ہوگا۔ اگر ہم ان کسان لوگوں کی پناہ میں چلے جائیں تو چڑی مار کے ظلم و ستم سے بچ سکتے ہیں۔ بہت سے طوطے ایک ساتھ بولے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ وہ طوطا اپنی بات پر اڑا رہا۔ حالانکہ اس کی بات کسی نے نہ مانی اور میٹنگ ختم ہوگئی۔ چونکہ اس طوطے نے پکا ارادہ کرلیا تھا، اس لئے اپنے ساتھیوں سے چھپ کے کسان کی عادتوں اور طریقوں کااور ان کی خوبیوں کا پتہ لگانے لگا۔ زیادہ تر اس کا وقت بادشاہ کے باغ میں گزرتا۔ باغ سے کچھ دور ایک بہت بڑا اور گھنا آم کا درخت تھا، اس کے نیچے ایک استاد بچوں کو پڑھایا کرتا تھا۔ اچھی اچھی نظمیں اور نصیحت آموز کہانیاں وہ یاد کرچکا تھا، پھر جب خالی وقتوں میں زور زور سے پڑھنے لگا تو استاد صاحب کے ساتھ تمام لوگ چونک اُٹھے۔ آس پاس کے علاقے میں بھی اس کا چرچا ہونے لگا۔
دور دور سے لوگ اسے دیکھنے کیلئے آنے لگے۔ یہاں تک کہ ایک دن بادشاہ بھی آکر اس کی نظمیں اور کہانیاں سن گیا۔ لوگوں کی ذات سے چونکہ طوطے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی تھی اس لئے وہ نڈر ہوگیا تھا، ایک دن استاد صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا اور کچھ سیکھنے کی خواہش کی وجہ سے وہ استاد صاحب کے بازو پر آکر بیٹھ گیا، تب سے بچوں کے ساتھ گھل مل گیا۔ اب اس کی خدمت میں بادشاہ کے حکم پر سونے کا پنجرہ اور چاندی کی کٹوری پیش کی گئی۔ ساتھ ہی طرح طرح کے پھل اس کے آگے آنے لگے اور وہ وہاں رہ کر علم حاصل کرنے لگا۔ ایک دن اس کے دل میں اپنے ساتھیوں کا خیال آیا۔ اس نے سوچا کہ ان کا حال چال معلوم کرنا چاہئے۔ یہ کتنی بری بات ہے خوشی کے دنوں میں اپنے آپ کو بھلادیا جائے۔ وہ جنگل پہنچا تو اس کے سارے ساتھی پہلے کی طرح خوف زدہ تھے۔ اس نے دیکھا کہ چڑی مار تاک لگائے بیٹھا ہے۔ اسے بڑا غصہ آیا۔ وہ اس پیڑ پر جابیٹھا اور اس چڑی مار سے کہا : ’’اے چڑی مار ! شرم کرو اور مجھ سے سبق سیکھو، تم نے اپنی زندگی کیا بنا رکھی ہے، طوطوں کو پکڑ کر تمہیں کیا ملتا ہے، کیا تم اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ بھر لیتے ہو؟ بھری دنیا میں تمہاری کوئی عزت ہے؟ رحم آتا ہے تمہاری زندگی پر، جاؤ کھیت میں محنت کرو اور اپنی روزی کماؤ شاید تم علم سے بے بہرہ ہو اس لئے عقل سے کورے ہو۔‘‘ ایک طوطے کے منہ سے انسان کی زبان کی یہ سب نصیحتیں سن کر چڑی مار کی عقل حیران رہ گئی۔ اس نے سوچا کہ طوطے کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے جانا چاہئے کافی انعام ملے گا، لیکن طوطا اُڑ چکا تھا۔ چڑی مار ہاتھ ملتا رہ گیا۔ پھر اس نے طوطے کی باتوں پر غور کیا تو اس نے دیکھا کہ واقعی اس کی زندگی میں رکھا ہی کیا ہے۔ چڑی مار کی زندگی اختیار کرکے اس نے دولت کمائی اور نہ عزت، سوائے جنگل میں مارے مارے پھرنے کے اسے کیا مل رہا ہے؟ اس نے سوچا کہ اسے محنت کرکے روزی کمانی چاہئے، کھیت میں کام کرنا چاہئے یا کوئی دوسرا ہنر والا کام کرنا چاہئے۔ کہتے ہیں تبھی سے چڑی مار طوطے کا شکار نہیں کرتے۔ لوگ اپنے گھروں میں طوطے کو اس لئے پالتے ہیں کہ وہ اچھی اچھی باتیں دہراتا ہے۔