بلقیس اور برجیس دو بہنیں تھیں، ابھی دونوں ننھی منی تھیں ، ایک دن کی بات ہے کہ دونوں صحن میں کھیل رہی تھیں ، اچانک چڑیا کا ایک بچہ صحن میں آگرا، برجیس نے دوڑ کر پکڑ لیا۔ بولی ’’ میں تو اس کے پیرمیں دھاگے باندھوں گی، پھر دھاگا پکڑکر خوب اُڑاؤں گی۔‘‘
اتنے میں بہت سی چڑیاں اکٹھی ہوگئیں، چوں چوں چلانے لگیں۔ بچہ برجیس کے ہاتھ میں چپ سادھے کانپ رہا تھا۔ بلقیس نے دیکھا اور دوڑی ہوئی آئی بولی’’ چھی چھی! تم بے چاری کو تنگ کررہی ہو، دیکھو اس کی ماں چوں چوں کررہی ہے۔ یہ وہی گوریا تو ہے جس نے ہماری چھت پر گھونسلہ بنایا تھا۔ اب تک بچے ، ننھے منے تھے، اُڑنا جانتے نہ تھے اب اس کی امی اڑنا سکھارہی ہیں تو تم پیر میں دھاگا باندھوگی۔ اس کے بھی تو ہماری طرح جان ہے۔ تمہارے پیر میں اگر رسی باندھ کر کھینچا جائے تو کتنا دُکھ ہوگا اور امی تمہارے لئے کتنی بے چینی ہوں گی۔ میری سنو، اسے چھوڑ دو ۔‘‘ برجیس نہ مانی۔ بلقیس کے سمجھانے پر بھی وہ اَڑی رہی۔ بلقیس نے صحن کی دیوار سے لگاکر ایک چار پائی کھڑی کی ، برجیس کے ہاتھ سے بچہ چھین لیا، چار پائی کی مدد سے اوپرچڑھ گئی اور بچے کو دیوار کی منڈیر پر رکھ آئی۔چڑیوں نے چوں چوں کرنا بند کردیا۔ اپنے منے کو پھُر سے اُڑا لے گئیں۔ برجیس اپنا سامنھ لے کر رہ گئی۔