چُھٹّی

نہ بجلی نہ پانی نہ کولر یہاں پر
یہ گرمی کی چھٹی گزاروں کہاں پر؟
نہیں پیسے اتنے کہ کشمیر جاؤں
یا نینی کے تالوں پہ پکنک مناؤں
کروں تاج کے کیسے دِلکش نظارے؟
ادھورے ہیں اب تک میرے خواب سارے
اگر گھر میں کھیلوں تو سب ڈانٹتے ہیں
دَر و بام گھر کے مجھے کاٹتے ہیں
ہیں ماں باپ دِل میں یہ خدشہ سمائے
کہیں میرے بیٹے کو لُو لگ نہ جائے
رہوں قید گھر میں کہاں تک بتاؤ
میری بے بسی پر نہ تم مسکراؤ