چندر شیکھر راؤ کی عوامی مقبولیت

کام کا مقصد نہیں ہوتا ہے شہرت کا حصول
کام ہر یک کا فقط بے لوث ہونا چاہیئے
چندر شیکھر راؤ کی عوامی مقبولیت
تلنگانہ میں اب ایک سروے کی دھوم چل رہی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سروے میں چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راو کو ملک کا مقبول ترین چیف منسٹر قرار دیا گیا ہے ۔ دوسرے نمبر پر بی جے پی کے چیف منسٹر مدھیہ پردیش شیوراج سنگھ چوہان ہیں۔ چندر شیکھر راو نے جس وقت سے ریاست میں اقتدار سنبھالا ہے اسی وقت سے ان کی مقبولیت کے دعوے کئے جاتے رہے ہیں۔ ٹی آر ایس کے کچھ قائدین تو انہیں مہاتما کے سی آر بھی کہتے ہیں۔ جہاں تک عوام کا سوال ہے عوام میں بھی چندر شیکھر راو کی مقبولیت اپنی جگہ مسلمہ ہے ۔ انہیں اس بات کا امتیاز حاصل ہے کہ وہ علیحدہ ریاست تلنگانہ کے پہلے چیف منسٹر ہیں۔ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کیلئے انہوں نے جو جدوجہد کی تھی اور جو تحریک چلائی تھی اس تحریک نے انہیں عوامی مقبولیت عطا کی ہے ۔ اسی مقبولیت اور قیام تلنگانہ کے اعلان کے سبب چندر شیکھر راو کی جماعت کو ریاست میں اقتدار حاصل ہوا ۔ ٹی آر ایس نے کسی دلت کو ریاست کا پہلا چیف منسٹر بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن حالات اور عوام کو درپیش مسائل کو دیکھتے ہوئے خود چندر شیکھر راو نے چیف منسٹر کی حیثیت سے ذمہ داری سنبھالی تھی اور اب وہ ریاست کو آگے بڑھانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ چندر شیکھر راو کی جو عوامی مقبولیت ہے وہ تلنگانہ تحریک اور ریاست تلنگانہ کی تشکیل کی مرہون منت ہے ۔ ساتھ ہی انہوں نے انتخابات سے قبل ریاست کے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان وعدوں کی وجہ سے بھی وہ عوام میں مقبولیت حاصل کرسکے ہیں۔ اب بھی ریاستی حکومت ایک کے بعد ایک مسلسل وعدے کرتی جا رہی ہے اور عوامی مقبولیت کے اعلانات میں بھی اس کا کوئی جواب نہیں ہے ۔ تاہم جہاں تک اپوزیشن جماعتوں کا سوال ہے وہ اس طرح کے سروے رپورٹس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ اپوزیشن جماعتیں ایسے سروے کو محض ایک ڈھونگ یا سوانگ قرار دینے میں مصروف ہیں کیونکہ ان کے مطابق ریاست میں حکومت تشکیل دینے کے بعد چندر شیکھر راو نے عوام سے کیا ہوا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے ۔ ریاست کی تقریب ہر اپوزیشن جماعت اسی بات کو عوام میں پیش کرنے کی کوشش میں مصروف ہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے وعدوں سے انحراف کیا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ٹی آر ایس حکومت کے عوام سے کئے گئے وعدے پورے نہیں ہوئے ہیں۔ ٹی آر ایس نے انتخابات کے دوران اور تلنگانہ تحریک کے دوران مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک اس کی تکمیل نہیں ہوئی ہے ۔ ابتدائی ٹال مٹول کے بعد ریاست گیر سطح پر چلائی گئی کامیاب عوامی تحریک کو دیکھتے ہوئے حکومت نے بی سی کمیشن قائم کیا ہے اور اس کمیشن کے ذریعہ مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کا عمل تیز کرنے کی ضرورت ہے ۔ سدھیر کمیشن نے بھی جو رپورٹ پیش کی ہے اس کو بھی اس معاملہ میں پیش نظر رکھا جاسکتا ہے ۔ جہاں تک اپوزیشن کے الزامات کا سوال ہے اپوزیشن کا کام ہی حکومت کے کاموں کی مخالفت کرنا ہے لیکن یہ حقیقت ہی ہے کہ جو اہم وعدے ٹی آر ایس نے کئے تھے وہ ابھی پورے نہیں ہوئے ہیں۔ ابھی تک ریاست میں لاکھوں طلبا کیلئے فیس ری ایمبرسمنٹ کی رقومات جاری نہیں کی گئی ہیں۔ کسانوں کیلئے قرض معافی اسکیم کی رقم کی اجرائی بھی رکی ہوئی ہے اور ساتھ ہی آروگیہ شری اسکیم کی رقومات کو بھی جاری نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ ایسے مسائل ہیں جن سے عوام کی اکثریت کا مفاد وابستہ ہے ۔ اگر ایسے وعدوں کو پورا نہیں کیا جاتا ہے تو پھر حکومت کی کارکردگی پر ہونے والی تنقیدوں کو محض تنقیدوں تک محدود نہیں سمجھا جاسکتا اور نہ اسے اپوزیشن کا پروپگنڈہ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا جاسکتا ہے ۔ ان مسائل پر عوام کی فکر و تشویش کو پیش نظر رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے اور اس نے عوام سے جو وعدے کئے تھے ان کی تکمیل کیلئے بھی حکومت کو عملی اقدامات کرنے پر توجہ کرنا چاہئے ۔ محض زبانی جمع خرچ یا وعدوں سے حالت بہتر نہیں ہوسکتی ۔
چیف منسٹر کی مقبولیت کیلئے کسی سروے کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے تھی ۔ یہ سروے کس نے کیا ہے یہ بھی ایک سوال ہے لیکن جس وقت میں سروے کیا گیا ہے وہ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ ایسے وقت میں جبکہ طلبا برادری جدوجہد کر رہی ہے ‘ کسان پریشان حال ہیں اور مریضوں کو دواخانوں میں سہولتوں کا فقدان ہے حکومت ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے ایسے کاموں پر توجہ دے رہی ہے جن پر بھاری رقومات خرچ ہوسکتی ہیں۔ ان رقومات کو طلبا کی فیس ری ایمبرسمنٹ کیلئے جاری کیا جاسکتا ہے ۔ انہیں کسانوں کے قرض معافی اسکیم کیلئے جاری کیا جاسکتا ہے ۔ جب تک عوامی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اس وقت تک کسی بھی حکومت یا چیف منسٹر کی مقبولیت کے سروے کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی ۔ ایسی کوششیں محض حکومت کی ساکھ بنانے کی کوشش قرار دی جاسکتی ہیں۔