چندرا بابو نائیڈو کی کابینہ

کہاں تک اُن سے کوئی حالِ دل چھپا سکتا
جو بات دل میں تھی ظاہر کبھی تو ہوجاتی
چندرا بابو نائیڈو کی کابینہ
چیف منسٹر آندھراپردیش چندرا بابو نائیڈو کی کابینہ میں تلگودیشم پارٹی کے سینئر ارکان کو نظرانداز کرکے وائی ایس آر کانگریس سے منحرف ہوکر تلگودیشم میں شامل ہونے والے ارکان کو اہمیت دی گئی۔ کابینی توسیع میں وائی ایس آر کانگریس کے چار ارکان اسمبلی کو شامل کرنے پر تلگودیشم کے اندر ناراضگیوں کو تقویت حاصل ہوگی۔ چندرا بابو نائیڈو اگرچیکہ ایک تجربہ کار اور سنجیدہ لیڈر ہیں انہیں اپنی پارٹی کی بقاء و ساکھ کو برقرار رکھنے کا پورا خیال ہے لیکن انہوں نے کابینہ میں توسیع و ردوبدل کے ذریعہ پارٹی کیڈرس کو جو پیغام دیاہے اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نائیڈو نے اس کابینی تبدیلی میں مسلم نمائندگی کو بھی نظرانداز کردیا ہے۔ اگر تلگودیشم نے اپنی حلیف پارٹی بی جے پی کی خاطر مسلم طبقہ کو صفر قدر پر کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے تو پھر انہیں آندھرائی مسلمانوں کی ناراضگی سے پیدا ہونے والی صورتحال کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا پڑے گا۔ تلگودیشم کے مسلم کیڈرس کیلئے یہ بہت بڑا دھکہ ہے۔ 2014ء میں آندھراپردیش کا اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ کی گئی کابینی توسیع میں چندرا بابو نائیڈو نے اپنے فرزند نارا لوکیش کو بھی شامل کیا جبکہ پانچ وزراء کو گھر کا راستہ دکھا دیا۔ کابینہ سے خارج ہونے والے ان پانچ وزراء نے اپنے سیاسی مستقبل پر غور کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈر گوپالا کرشنا نے رکن اسمبلی کی حیثیت سے استعفیٰ بھی دیدیا ہے۔ حکومت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے اور آنے والے انتخابات کی تیاری کرنے کی خاطر چندرا بابو نائیڈو کو اپنی کابینہ میں توسیع و ردوبدل ضروری تھا۔ اس کے ساتھ ان کیلئے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ مسلم رکن کو کابینہ میں شامل کرتے تو مسلم طبقہ کے اندر پارٹی کے تعلق سے دوسرا ذہن تیار کرنے کی ضرورت نہیں پیدا ہوتی۔ کابینہ سے نکالے جانے اور کابینہ میں جگہ نہ پانے والے تلگودیشم ارکان اسمبلی کی ناراضگی کو وہ دور کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو پھر آنے والے 2019ء کے اسمبلی انتخابات میں انہیں ناراض قائدین سے ٹکراؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ضلع چتور سے تعلق رکھنے والے گوپال کرشنا کو چندرا بابو نائیڈو کا قریبی دوست مانا جاتا ہے۔ 2003ء میں تروپتی کے قریب زمینی سرنگ دھماکہ میں چندرا بابو نائیڈو کے ساتھ وہ بھی زخمی ہوئے تھے۔ غیرمنقسم آندھراپردیش کی کابینہ میں انہوں نے وزیر کی حیثیت سے خدمت انجام دی تھی۔ ان کی ناراضگی کو دور کرنے اب خود نائیڈو کو اپنی دیرینہ رفاقت کی دہائی دینی پڑے گی۔ اگرچیکہ نائیڈو نے انہیں فون کرکے استعفیٰ واپس لینے کی ترغیب دی ہے مگر سیاسی تقدیر کو لکھنے میں ہونے والی کوتاہی سے ایک علحدہ گروپ مضبوطی سے تشکیل پائے گا جو نائیڈو کیلئے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ جب کسی پارٹی کے سربراہ کو پارٹی کے اندر اور باہر کی صورتحال کا اندازہ کم ہونے لگتا ہے تو آگے کی منزل کے نشان واضح ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اصول اور نظریات کو بالائے طاق رکھ کر اپنی مرضی کے فیصلوں کو پرلگا کر اڑایا جاتا ہے تو پھر آزمائش کی گھڑی شروع ہوجاتی ہے۔ تلگودیشم نے مسلمانوں کو نظرانداز کیا ہے تو دوسری پارٹیوں کیلئے تلگودیشم کے خلاف مہم چلانے کا مؤثر ہتھیار فراہم کیا گیا ہے۔ آندھراپردیش کے مسلمانوں نے تلگودیشم کا ساتھ دیا ہے۔ تلگودشیم کے سیکولر کردار کو ضرب پہنچانے والی پالیسیوں میں بی جے پی سے ہاتھ ملانا سب سے بڑی خرابی سمجھی گئی تھی۔ اب کابینہ میںمسلم لیڈر کو شامل نہ کرنا یہ واضح کرتا ہیکہ مرکز کی بی جے پی سے تلگودیشم کی قربت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگرچیکہ چندرا بابو نائیڈو تلگودیشم کو ایک سیکولر پارٹی قرار دیتے ہیں اور مسلمانوں کی بہبود کیلئے کئی پالیسیاں بنانے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن کابینی توسیع نے تلگودیشم کے اعتبار کو آشکار کردیا ہے۔ بی جے پی سے ہاتھ ملانے کی وجہ سے مسلمانوں سے خود کو دور کرلینے والی تلگودیشم نے اگر خود کو غیرمستحکم کرلینے کا ارادہ کرلیا ہے تو آندھراپردیش میں اپوزیشن کی صفوں میں استحکام آئے گا۔