جو خوشامد پسند ہیں وہ تو
سب کو سرکار کہنے والے ہیں
چندرا بابو نائیڈو اور بی جے پی
تلگودیشم پارٹی کے صدر اور چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو ایسا لگتا ہے کہ ملک میں پیدا ہوئے حالات کی وجہ سے بی جے پی سے خوف محسوس کرنے لگے ہیں۔ انہوں نے بی جے پی کو کسی وقت ساتھ لے کر کام کیا تھا ۔ بعد میں بی جے پی سے دوری اختیار کرلی تھی ۔ بعد میں اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ کبھی بی جے پی کے ساتھ نہیں جائیں گے اس کے باوجود وہ آندھرا پردیش ریاست کی تشکیل کے بعد ہوئے انتخابات میں بی جے پی کے ساتھ ہوگئے ۔ انہوں نے بی جے پی سے دوستی کرتے ہوئے مرکزی حکومت میں بھی شمولیت اختیار کرلی اور آندھرا پردیش میں بی جے پی کو اپنی حکومت میں شامل کرنے رضا مندی ظاہر کی ۔ اب ایسا لگتا ہے کہ وہ سیاسی حالات کی وجہ سے بی جے پی سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ بی جے پی نے جنوبی ہند کی ریاستوں پر توجہ مرکوز کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس سمت میں کام کرنا بھی شروع کردیا ہے ۔ بی جے پی کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے کہ شمالی ہند میں اس کا موقف مستحکم ہوگیا ہے اور وہاں ابھی اسے کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتا ۔ ایسے میں وہ آئندہ انتخابات میں مزید بہتر انداز میں کامیابی حاصل کرنے کے مقصد سے جنوبی ہند کی ریاستوں پر توجہ دینے کا منصوبہ رکھتی ہے ۔ اب اس پارٹی نے تلنگانہ کیلئے بھی اپنے منصوبہ کا اعلان کردیا ہے ۔ بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ تلنگانہ کا تین روزہ دورہ مکمل کرچکے ہیں اور یہاں انہوں نے بی جے پی نظریات کے مطابق فرقہ وارانہ ماحول پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے ۔ اسی طرح وہ آندھرا پردیش کیلئے بھی تیاری کرسکتے ہیں لیکن چندرا بابو نائیڈو وقت سے پہلے تیاری کرنے میں جٹ گئے ہیں اور وہ بی جے پی کی عملا خوشامد کرنے لگے ہیں۔ پارٹی مہاناڈو میں خطاب کرتے ہوئے نائیڈو نے پارٹی قائدین کو انتباہ دیا ہے کہ وہ بی جے پی کے خلاف تبصروں یا ریمارکس کرنے سے گریز کریں۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے یا نہ کرنے کے تعلق سے کوئی بھی فیصلہ پارٹی ہائی کمان کی جانب سے کیا جائیگا ۔ نائیڈو نے تلگودیشم قائدین کو یہاں تک نصیحت کردی کہ وہ بی جے پی کی جانب سے تنقیدوں کا جواب بھی دینے کی کوشش نہ کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی کی جائیگی ۔
چندرا بابو نائیڈو کے تعلق سے سبھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ موقع سے فائدہ اٹھانے اور حالات کا استحصال کرنے میں ماہر ہیں۔ وہ 2014 کے لوک سبھا انتخابات سے قبل بھی بی جے پی کے حق میں چلنے والی لہر کو بھانپ چکے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے اس وقت سبھی کی توقعات کو خاطر میں لائے بغیر بی جے پی سے اتحاد کیا تھا ۔ اب وہ 2019 کے انتخابات میں بھی بی جے پی سے اتحاد جاری رکھنے کے حق میں ہے ۔ وہ جانتے ہیں کہ دوسرے درجہ کے قائدین کی جانب سے اگر ایک دوسرے کے خلاف تنقیدیں جاری رہتی ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات عائد کئے جاتے رہیں تو انتخابات میں دونوں کو ایک ساتھ مہم چلانے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے درجہ کے قائدین کی تنقیدوں سے ہوسکتا ہے کہ پارٹی کی اعلی قیادت کو بھی میدان میں آنا پڑے اور ایسی کوئی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے جب دونوںجماعتیں چاہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اتحاد نہ کرسکیں۔ نائیڈو اسی صورتحال سے بچنا چاہتے ہیں ۔ وہ آندھرا پردیش میں اپنے اقتدار کو بچانے کی فکر میں ہیں اور یہاں انہیں اپوزیشن کی مہم کا بھی سامنا ہے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بی جے پی کی مقبولیت اور مرکزی حکومت کی تائید سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاست میں تلگودیشم کے اقتدار کو بچایا جاسکے ۔ اس کے علاوہ نائیڈو یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کے بی جے پی سے دور ہونے کی صورت میں جگن موہن ریڈی کو بی جے پی سے قربت بنانے کا موقع مل جائے ۔دونوں ہی صورتوں میں نائیڈو کیلئے حالات مشکل ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ چندر ابابونائیڈو ملک میں مختلف ریاستوں اور مقامات پر ہوئے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابیوں سے بھی مرعوب نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس کے کرپشن سے بیزار ملک کے عوام کیلئے نریندر مودی کی شکل میں امید کی ایک کرن نظر آئی تھی اور ملک کے عوام نے اسے قبول کرلیا ہے ۔ چندرا بابو نائیڈو کی مفاد پرستی اور موقع پرستی اپنی جگہ لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کرپشن روکنے کے نام پر ہی نوٹ بندی کا اعلان کیا گیا تھا اور چندرا بابو نائیڈو نے ابتداء میں اس مسئلہ پر مخالفانہ روش اختیار کی تھی ۔ انہوں نے کھلے عام اس فیصلے کی مخالفت کی تھی لیکن انہیں تین رکنی کمیٹی کا حصہ بنادیا گیا تو انہوں نے اس فیصلے کی تائید میں اظہار خیال کیا تھا ۔ سیاست میں دوستی اور مخالفت مستقل نہیں ہوتی لیکن اس کیلئے اصولوںاور ریاست کے مفادات کو داو پر لگانے سے گریز کرنا چاہئے ۔ حلیف جماعت کی خوشامد مناسب نہیں ہے ۔