حیدرآباد۔/26 مارچ(سیاست نیوز) چلر کے فقدان کے باعث گاہک اور دکاندار کے درمیان بسا اوقات تکرار ہوجایا کرتی ہے۔ دکاندار حضرات نے سکوں کی کمی کا یہ حل نکال لیا ہے کہ وہ سکوں کی بجائے کچھ اشیاء گاہک کو تھمادینے لگے ہیں مگر آر ٹی سی بس کنڈکٹرس اور مسافرین ہنوز چلر کی کمی کے باعث الجھن کا شکار ہیں۔ شہر میں چلر کی عدم دستیابی ہر ایک کے لئے مسئلہ بن گئی جس میں شدت آتی جارہی ہے۔ دکانداروں کو چلر کی عدم دستیابی کے باعث اکثر مشکل پیش آیا کرتی ہے تاہم انہوں نے اس مسئلہ کا ایک متبادل تلاش کرلیا ہے۔
اب دکانداروں کا یہ معمول بن گیا ہے کہ وہ دس روپے تک چلر کی بجائے متبادل دام کی اشیاء صارفین کو تھمانے لگے ہیں۔ ایک صارف نے بتایا کہ پہلے سوپر مارکٹس میں ایک روپیہ یا دو روپیہ کے بدل چاکلیٹ یا سونف؍چھالیہ کی پڑیا دیا کرتے تھے مگر اب پانچ تا سات روپے کا بسکٹ پیاکٹ تھمایا جارہا ہے۔ تاہم چلر کی عدم دستیابی کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے سٹی بسوں میں سفر کرنے والے اور کنڈکٹرس ہیں۔ کنڈکٹرس کو آر ٹی سی انتظامیہ کی جانب سے روزانہ پہلی چکر کے موقع پر 50 روپے قدر کا چلر فراہم کیا جاتا ہے تاہم یہ چلر بہت جلد ختم ہوجاتا ہے چونکہ مسافرین کے پاس بھی چلر نہیں ہوتا۔ ایک کنڈکٹر نے بتایا کہ خاطر خواہ چلر نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف مسافرین اور ہم متاثر ہوتے ہیں بلکہ کارپوریشن بھی متاثر ہورہا ہے۔ البتہ اس قلت کا فائدہ کچھ چھوٹے تاجرین، کمیشن ایجنٹس اور فقراء برداری کو ہوتا ہے جنہیں ایک سو روپے کے چلر پر پہلے 5 روپے زائد ملا کرتے تھے مگر اب 10-15 روپے ملنے لگے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ کچھ لوگ ریزرو بینک آف انڈیا سے قطاروں میں ٹھہر کر سکے یا کم قدر کے نوٹس خریدا کرتے تھے مگر اب یہ 15 روپے طلب کررہے ہیں ۔ اسی طرح بینک کے کچھ کلرک سطح کے ملازمین بھی چلر کا کاروبار کرنے لگے ہیں۔ ایک ٹفن سنٹر کے مالک نے بتایا کہ کمیشن ایجنٹس بینک عہدیداروں سے اپنے تعلقات کی بناء سکوں کی بھاری مقدار حاصل کرلیتے ہیں اور پھر زائد رقم کی ادائی پر ہمیں فروخت کرتے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ تلن اور ٹفن سنٹرس والوں نے اشیاء کی قیمتیں ایسی متعین کردی ہیں کہ چلر کا مسئلہ ہی باقی نہ رہے۔