چشمۂ صافی کی دریافت، جسکا مقدر تھا

۱۳۱۱ھ؁ تا ۱۳۶۸؁ ھ۔ ۱۸۹۱ ؁ء تا ۱۹۴۸؁ء
دارالعلوم عربیہ کاؤرم پیٹہ کا قیام ۱۳۴۲ ؁ ھ ۱۹۲۴؁ء

ابوزھیرسیدزبیرھاشمی نظامی، مدرس جامعہ نظامیہ
(قدیم طالب علم دارالعلوم عربیہ کاؤرم پیٹہ)
اللہ تعالی فرماتے ہیں جو کوئی میرے اولیاء کو ستاتا ہے، میں اس کو بری نظر سے دیکھتا ہوں، بلکہ فرمایا ’’میں میرے دوست کو اذیت پہنچانے والے کے خلاف اعلان جنگ کردیتا ہوں‘‘۔ بعض دفعہ اللہ تعالی اپنے دوستوں کا امتحان ان کے مخالفین اور دشمنوں کے ذریعہ فرماتے ہیں، مگر پھر بہت جلد مخالفین پر غضب نازل ہونے لگتا ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ ہم نے بزرگوں کی مخالفت کی، لیکن ہمارا کچھ نہ بگڑا۔ اولیاء اللہ کو ستانا کبھی خالی نہیں جاتا۔ (مواعظ حسنہ سے ماخوذ)
کائنات کی ساری کامیابیاں علم و عمل میں ہیں ۔ لیکن ساری سعادتیں دینی علم اور عمل صالح میں ہیں۔ انسانی افراد کی کردار کے اعتبارسے تین حیثیتیں ہیں (۱) وہ جن کی حیثیت غذا جیسی (۲) وہ جن کی حیثیت دوا جیسی (۳) وہ جو بیماری جیسی کیفیت رکھتے ہیں۔ جس طرح غذا ہر انسان کے لئے ہر روز ضروری ہے اسی طرح غذا جیسی حیثیت والے افراد سے ربط ضروری ہے تاکہ باعزت اور کامیاب زندگی قائم ہو۔ دوا جیسی حیثیت والے افراد سے واقفیت ضرور ی ہے تاکہ بوقت ضرورت مستفید ہوسکے۔ بیماری جیسی حیثیت والوں سے احتیاط ہر دم ضروری ہے۔ہر روز نہ جانے کتنے انسان دنیا میں آتے اور پھر موت کی تاریک وادیوں میں گم ہوجاتے ۔مگر انسانی تاریخ میں کچھ ایسی ہستیاں بھی وجود پاتی ہیں جن کی وجاہت اور فیض بخشی سے اﷲتعالیٰ کی مخلوق مستفید ہوتی اور آسمانی شہرت پر بدر کامل بن کر چمکتی ہیں ۔ عالَمِ برزخ میں پہنچنے کے باوجود ان کے فیض کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔
شہر حیدرآباد سے اسی (۸۰) کیلومیٹر دور ایک قصبہ بنام ’’کاؤرم پیٹہ‘‘ میں ایسی ہی بافیض وعالی مرتبت شخصیت حضرت الحاج محمد عبد ا لحق نور اﷲ مرقدہ بانی دارالعلوم عربیہ کاورم پیٹہ پہلی شاخ ازہرِ ہند جامعہ نظامیہ حیدرآباد تلنگانہ کی ہے ۔ انعام یافتہ بندوں کی پہچان قرآن مجید کی رَو سے انبیاء علیھم السلام ، صدیقین ، شہداء وُ صالحین ہیں ۔ ان میں انبیاء و صدیقین کی نسبت علم سے مضبوط تر اورشہداء و صالحین کی نسبت عمل سے مضبوط تر ہے ۔امن و سکون اور کائنات کی سچائیاں اور حقیقتیںان ہی اصولوں میں ہیں جو چودہ صدی قبل سرور کونین رحمۃ اللعلمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دے چکے اور یہ رہتی دنیا تک باقی رہیں گے ۔ جو ان سے منہ موڑا وہ ٹھوکریں کھایا ۔
تعلیم وتربیت کا عمل گزشتہ زمانے میںعبادت کی حیثیت رکھتاتھا ۔ اور یہ حق بھی ہے کیونکہ مسلمانوں کا نصابِ تعلیم و تربیت شریفانہ انسانی تعلقات کے استحکام اور انسان کو اﷲ تعالیٰ سے جوڑنے کا ایک مضبوط ذریعہ تھا ۔ اس نصاب تعلیم سے سیاسی ثقافتی تمدنی اور عالمی پیمانہ پر تمام قوموں کے درمیان اعتماد و اعتبار کی فضا قائم ہواکرتی تھی ۔ اور ایسا نہیں ہوتا تھا کہ تعلیم اور ثقافت کے وسائل اور اس کے نظام کو ناپسندیدہ جذبات کے ابھارنے اور انتقام کی پیاس بجھانے کے لئے استعمال کیا گیا ہو ۔ اور نہ ہی تجارتی سامان کی طرح مارکٹنگ کیلئے استعمال کیا گیاہو ۔
دور حاضر کا یہ بڑا المیہ ہے کہ عصری مروجہ علوم اخلاقیات سے خالی اور شرف انسانیت سے محروم رہنے کے باوجود ان کو ناقص نہیں سمجھا جارہا ہے بلکہ لازم اور ضروری سمجھا جارہا ہے ۔ دور حاضر فتنوں سے بھرا ہواہے ۔ عملی فتنے جیسے معاشرتی بگاڑ ، بے حیائی ، رشوت خوری ، سودی لین دین ، رقص اور سرور وغیرہ ۔ اخلاقی بیماریاں ، نظریات ، علوم وُ فنون کے ذریعہ فتنے جیسے الحاد ، بے دینی ، کفر ، تحریف ۔ عملی فتنے جیسے حق کو مشتبہ کرنے کی کوشش ۔ مختلف قسم کے تعصبات کو فروغ دیاجارہا ہے ۔ خا نہ جنگی ، ثقافت کے نام پر ناچ و رنگ و سرور عریانیت وغیرہ ۔ اور جو علوم انسان میں جذبہ عبودیت اور انسانیت پیدا کرنے والے ہیں یعنی دینی علوم کو ناقص سمجھارہا ہے ۔ اور دینی مدارس کے طلباء وُ عملہ کو نظروں سے گرایا جارہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ دینی علوم حاصل کرنے والے پوری آبادی کا ۵ فیصد بھی نہیں جبکہ ۹۵ فیصد سے زائد مروجہ اخلاقیات سے خالی علوم حاصل کر رہے ہیں ۔ اندازہ کیجئے کہ ہمارے معاشرہ پر کس کا اثر غالب رہیگا اب فیصلہ کرلیجئے کہ ۵ فیصد کو بھی مروجہ عصری علوم حاصل کرنا ضروری ہے یا ۹۵ فیصد کو اخلاقیات و انسانیت پیدا کرنے والے اور مسلم شناخت برقرار رکھنے والے علم کو بھی حاصل کرنا ضروری ہے ۔موجودہ زندگی کے حساب اور جزا کے لئے عالَمِ آخرت میں جانا ہے مروجہ عصری علوم کے ذریعہ حاصل ہونے والے مال ، شہرت ، عہدہ کیا آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بن سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں کیونکہ یہ سب اسی دنیا میں رہ جائیں گے ۔
ایمان اور عمل صالح دنیا میں عزت ، برکت اور سکون کے ساتھ آخرت میں نجات کا ذریعہ ہیں ۔ اسی بامقصد اور لازمی تعلیم و تربیت کے لئے خصوصاً دیہات و قریہ جات کے باشندگان کو زیورِ علم سے آراستہ کرنے اور اعلیٰ دینی تعلیم کی شاہراہ پر ڈالنے کے لئے مسلم دور حکمرانی میں قصبہ کاورم پیٹہ میں ایک مرکز بہ نام دارالعلوم عربیہ کاورم پیٹہ ( ضلع محبوب نگر ، آندھرا پردیش ) اقامتی ادارہ۱۳۴۲؁ ھ م ۱۹۲۴ء؁ میں قائم کرکے اعلی تعلیم کے حصول کے لئے جامعہ نظامیہ حیدرآباد سے الحاق کئے ۔ جو الحمد ﷲ اپنے مقصدِ قیام میں کامیابی کے ساتھ سفر جاری رکھتے ہوئے علماء ، مشائخ اور مشاہرِ قوم کا اعتماد حاصل کرچکا ۔
مسلمان کا مقصدِ زندگی اور اس کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ وہ انسانوں کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر خالقِ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت وُ پرستش پر آمادہ کرے ۔ اور دین اسلام کوئی فرسودہ خیالات کا مجموعہ اور عصرِحاضر کے تقاضوں کی تکمیل سے عاجز وُ قاصر نظام نہیں ۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کی تربیت اس انداز سے کریں کہ اس کا سینہ عقیدۂ توحید سے معمور اور اس کا قلب نورِ ایمان سے منور اور سوزِ عشق سے مخمور اور دینِ اسلام پر فخر سے بھر پور رہے ۔
اسلامی معاشرہ میں اس وقت انفرادی وُ اجتماعی حیثیت سے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات کے بیج بوئے جارہے ہیں تاکہ اسلامی نظامِ حیات کو فرسودہ اور صلاحیت کھوچکا مذہب باور کرلیں اور جارحانہ حملہ تعلیمی اداروں پر لازم کیا جارہاہے ۔
مسلما نوں کا نـفاق دشمن کی کامیا بی:دینداری اور دینی مدارس کے اثرات ختم کرنا ۔ ہر ملک کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی لانے کی کوشش ۔سازشوںسے گھری اس امت مسلمہ کی بھر پور رہنمائی علماء اور مدارس کی ذمہ داری ہے ۔خوارج ابن سبا خلق قرآن یونانی فلسفہ مادیت کا دورہ جیسے فتنوںسے کامیاب مقابلے ہوچکے۔ دورِ حاضر کا بڑا فتنہ ہے جدید علوم ، جدید نظریات ، جدید وسائل کا مخالف دینی علوم و تربیت کیلئے بھر پور استعمال ہے بلکہ تاریخ ادب معاشیات کے ذریعہ بھی دین بیزاری اورشکوک وُ شبہات پیداکرنا آج کے دانشوروں کا محبوب مشغلہ ہے ۔
دینی تعلیم وُ تربیت کا نظام مشکوک یا مفلوج ہوجائے تو ارتداد پھیل جائے گا۔جیساکہ بعض سابق مسلم علاقوں کا نقشہ موجود ہے ۔عقائد میں رواداری کی گنجائش ہر گزنہیں۔ لیکن دین کے فروعی معاملات اور اخلاقیات میں رواداری اور آپسی اتحاد سے کام لینا چاہئے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اہل اﷲ کے ساتھ رابطے میں رہنا۔ اور ایمان کو اتنا مضبوط بنانا کہ کوئی اسے ختم نہ کرسکے۔ اﷲ ملت اسلامیہ کی حفاظت فرمائے ۔ اٰمین
zubairhashmi7@mail.com