چراغ راہ ہے، منزل نہیں ہے

سید زبیر ہاشمی، معلم جامعہ نظامیہ

انبیاء و مرسلین عظام علیہم السلام کی تاریخ ہم کو یہ بتاتی ہے کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہر نبی و رسول کو کوئی نہ کوئی ایسا معجزہ عطا فرماتا ہے جو اپنیزمانے اورتقاضے کے مطابق ہوتا ہے۔ لہٰذا اس وقت کے حالات اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا معجزہ دیا گیا کہ اُس کے پورے زمانے میں عقل انسانی کسی ایسی چیز کو ایجاد نہ کرسکے جو اُس زمانے کے نبی یا رسول کے معجزہ کو مات کردے یا اس معجزہ کی نفی کردے {نعوذباﷲ}۔ معجزہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ عقل انسانی کی تمام تر ایجادات سے آگے نکل جائے۔ مثال کے طور پر یہاں صرف دو واقعات تحریر کئے جارہے ملاحظہ ہو:

٭ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ مبارکہ میں انسانی عقل نے جادو جیسا فن ظاہر تھا۔ اﷲرب العزت نے قرآن حکیم میں فرعون کے دربار کا ذکر بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ فرعون نے اﷲ رب العزت کے نبی کے مقابلے میں بڑے بڑے جادوگروں کو جمع کیا اور انہیں اپنے کمالات دکھانے اور اُس کے ذریعہ سبقت لے جانے کیلئے کہا۔ جادوگر زمین پر اپنی رسیاں ڈالدیتے تو وہ رسیاں سانپ بن جاتیں۔ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو ان جادوگروں کے مقابلے میں اپنا عصا ڈالدینے کا حکم رب تبارک و تعالیٰ کی طرف سے ہوا اور یوں قدرت الٰہیہ کے مظہر کے طور پر آپ کا عصا ایک اژدھا بن کر تمام سانپوں کو نگل گیا۔
٭ حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں یونانی اطباء عجیب عجیب بیماریوں کو دوا دیکر دور کردیتے تھے۔ یہ کارنامہ انسانی عقل کا تھا۔ اس دوران اﷲ رب العزت نے حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا ہوا کہ آپ مردوں کو زندہ کردیتے، کوڑیوں کو تندرست کردیتے، مادر زاد اندھوں کو بینائی عطا کرتے۔ یہ معجزات ایسے تھے کہ کوئی بھی شخص اِس معجزے کا جواب نہ دے سکا۔

تمام انبیائے سابقین علیہم السلام کی نبوتیں پابند تھیں، اس لئے انہیں محدود معجزات عطا کئے گئے تھے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب اس دنیا میں تشریف لائے تو ہر جگہ ظلم، جہالت، تاریکیوں میں لپٹی ہوئی تھی۔ یہ انسانی تاریخ کا ایک ایسا دور تھا کہ اس میں انسانی عقل ترقی کے کئی منازل طے کرتے چلے گئے تھے۔ اسی لئے حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو معجزات عطا کئے گئے تھے وہ بھی جدید سائنسی علوم کے ذریعہ خلاؤں میں انسانوں کی آمد و رفت کو پیش نظر رکھ کر عطا کئے گئے تھے۔ اسلئے اب قیامت تک انسانی عقل چاہے وہ سائنس کے اعتبار سے ہو یا ٹکنالوجی کے ترقی کرتی چلی جائے، معجزۂ مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کی عظمتوں اور رفعتوں کا جواب پیش کرنے سے عاجز رہے گی۔
اگر ہم آج کی اکیس ویں صدی کی ایجادات، ترقیات کو دیکھیں اور غور و فکر کریں تو یہ گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ معجزہ معراج مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کو جھٹلائیں۔ اگر آج کی ناقص العقل خلاؤں کو چیرتے ہوئے چاند پر قدم رکھ سکتی ہے تو خالق کائنات کی عطا کردہ روحانی قوت کے ذریعہ آقائے دوجہاں حضور علیہ التحیۃ والثناء کا آسمانوں اور اسکے آگے کی بلندیوں کو چیرتے ہوئے مقام قاب قوسین تک پہنچنا کیونکر ممکن نہیں !
عقل جب عقلِ ناقص ہو، حضور پاک علیہ السلام کی رفعتوں، عظمتوں کا اعتراف کرنے سے قاصر رہتی ہے، لیکن عقل جب اپنے نقص کا اقرار کرکے کامل عقل بن جاتی ہے تو عظمت احمد مجتبٰی صلی اﷲ علیہ وسلم کا کوئی نہ کوئی گوشہ اُس پر ظاہر ہوجاتا ہے۔ جیساکہ مشہور شاعر زمانہ علامہ اقبال نے اس ناقص عقل کے متعلق فرمایا ہے:

گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے، منزل نہیں ہے
الغرض معجزے کی سطح کا آغاز ہی عادت الٰہیہ کی آخری سرحدوں سے ہوتا ہے اور سائنس تو ابھی عادت الٰہیہ کی ابجد بھی نہیں سیکھ پائی۔ شیخ الاسلام والمسلمین حضرت عارف باللہ امام محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ {بانی جامعہ نظامیہ} افادۃ الافہام جلد دوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اس طرح سرکار کی معراج کا انکار کیا اور بعض نے مذاق اُڑایا۔ منکر تو کافر ہی ہوگئے اور مذاق اُڑانے والوں میں جو مسلمان تھے وہ بھی مرتد ہوگئے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و سلم سفر معراج سے تشریف لائے تو حضرتہ اُم ہانی رضی اللہ عنہا سے کہنے لگے کہ معراج کا واقعہ لوگوں سے بیان کروں تو حضرت اُم ہانی رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ یا رسول اللہ! رب نے آپ کو اپنے خاص فضل و کرم سے نوازا ہے یہ دنیا والے سمجھ نہیں سکتے۔ ان کے سامنے بیان مت کرو۔ تو سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت اُم ہانی رضی اﷲ عنہا کے پاس سے جب باہر آئے تو دشمن خدا و دشمن رسول ابوجہل موجود تھا،گفتگو کے درمیان سرکار نے فرمایا میں رات کے کچھ حصہ میں بیت المقدس گیا، اتنا سننا تھا کہ ابوجہل نے کہاکہ کیا تم سب کے سامنے کہو گے؟ تو سرکار نے فرمایا کیوں نہیں؟ جب سب کو جمع کیا گیا تو سب کے سامنے سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کھڑے رہ کر اعلان کررہے ہیں کہ میں رات کے کچھ حصہ میں بیت المقدس گیا اور ساتوں آسمانوں کی سیر کی، جنت و دوزخ کا مشاہدہ بھی کیا پھر قبل از صبح واپس آیا تو کفار مکہ نے آپ کو طعنہ دیا یہ کس کے بس میں ہے کہ دو مہینہ کا طویل سفر جو رات کے کچھ حصہ میں کیا جائے اور قبل از صبح لوگوں کے درمیان ہو ؟

حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ کفار مکہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے پاس پہونچتے ہیں کہتے ہیں کہ اے ابوبکر اب تو آپ کے رفیق اعلیٰ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ رات کے کچھ حصہ میں بیت المقدس گئے پھر آسمانوں کی سیر کی جنت و دوزخ کا مشاہدہ کیا۔ آپ بھی اس کی تصدیق کریں گے؟ اُدھر کفار مکہ بطور طعنہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو کہہ رہے ہیں، اِدھر ابوبکررضی اﷲ عنہ کے دل میں محبت رسول کا چراغ اپنی روشنی کو اور بھی تیز کررہا ہے۔ اب ابوبکررضی اﷲ عنہ کا ایمان دیکھئے کہ ابوبکررضی اﷲ عنہ یہ نہیں کہتے کہ ذرا ٹھہرو، میں جاکر اس بات کی تصدیق کروں گا، معلومات حاصل کروں گا، پھر اس کے بعد جواب دوں گا، نہیں کہتے بلکہ قرآن نے کیا فرمایا : ’’ألذین یؤمنون بالغیب‘‘ کامیاب ہیں وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ تو ابوبکررضی اﷲ عنہ نے کھل کر تصدیق کردی کہ اگر یہ الفاظ میرے نبی صادق حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہیں تو بالکل حق ہیں اس میں کسی قسم کے کوئی شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں۔ اُسی وقت سے حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو صدیق کا لقب ملا۔
zubairhashmi7@gmail.com