چتور میں آندھرا پولیس نے 20 صندل اسمگلرس کو گولی ماردی

چتور ؍ چینائی ۔ 7 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) مبینہ طور پر سرخ صندل کی لکڑی کے 20 اسمگلرس کو آج پولیس نے آندھراپردیش کے ضلع چتور میں گولی مار کر ہلاک کردیا لیکن پڑوسی ریاست ٹاملناڈو کی سیاسی پارٹیوں نے پولیس کارروائیوں کو ’’بے رحمانہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ ان کا دعویٰ ہیکہ 12 مہلوکین ان کی ریاست کے مزدور تھے۔ 6 پولیس ملازمین بھی زخمی ہوگئے۔ پولیس کا دعویٰ ہیکہ مبینہ مسلح اسمگلرس کے حملہ سے یہ افراد زخمی ہوئے۔ اسمگلرس کے پاس زنجیریں، کلہاڑیاں اور دیسی ساختہ اسلحہ تھے۔ تاہم ٹاسک فورس اور محکمہ جنگلات کے ارکان عملہ نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے 200 سرخ صندل کے لکڑہاروں کو دیکھا جو درخت کاٹ رہے تھے اور ان سے ہتھیار ڈال دینے کیلئے کہا۔ تاہم اسمگلرس نے جو ہتھیاروں کے علاوہ پتھروں سے بھی مسلح تھے، پولیس اور محکمہ جنگلات کے ارکان عملہ پر حملہ کردیا جس سے 6 ملازم پولیس زخمی ہوگئے۔ ڈی آئی جی پولیس (اسپیشل ٹاسک فورس) ایم کانتا راؤ نے کہا کہ پولیس نے خود حفاظتی کے طور پر جوابی فائرنگ کی جس میں 20 اسمگلرس ہلاک ہوگئے اور دیگر کئی موقع واردات سے فرار ہوگئے۔ تاہم ٹاملناڈو کی سیاسی پارٹیوں نے اس واقعہ پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ ڈی ایم کے، بی جے پی، بی ایم کے اور سی پی آئی نے دعویٰ کیا کہ ٹاملناڈو کے غریب مزدور مہلوکین میں شامل تھے اور حکومت آندھراپردیش سے خواہش کی کہ سرخ صندل کی اسمگلنگ پر قابو پانے کیلئے ’’قانونی ذرائع استعمال کئے جائیں‘‘۔

یہ دعویٰ کرتے ہوئے کہ مہلوکین ٹاملناڈو کے بے قصور مزدور تھے، جنہیں جنگلات میں پڑوسی ریاست کے ضلع چتور میں زیادہ اجرت حاصل ہونے کی ترغیب دی گئی تھی۔ این ڈی اے کی حریف ڈی ایم کے کے سربراہ رام داس نے کہا کہ انہیں کسی تفتیش کے بغیر گولی مار کر ہلاک کردینا ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے آندھراپردیش پولیس کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ اس نے خود حفاظتی میں فائرنگ کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک ’’سفید جھوٹ‘‘ ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے موجودہ جج سے تحقیقات کروانے اور مہلوکین کیلئے راحت رسانی کے علاوہ پولیس عہدیداروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ڈی ایم کے سربراہ کروناندھی نے ایک بیان میں کہا کہ دونوں ریاستوں کی حکومتوں کو چاہئے کہ مہلوک مزدوروں کے ارکان خاندان کیلئے راحت رسانی کا اعلان کریں۔ جو فائرنگ کے تبادلہ میں ہلاک ہوگئے۔ ٹاملناڈو کے ایک اعلیٰ سطحی پولیس عہدیدار نے کہا کہ وہ آندھراپردیش کے پولیس عہدیداروں کے ساتھ ربط رکھے ہوئے ہیں اور تحقیقات کررہے ہیںکہ ہلاک ہونے والے 12 مزدور ترو ونا ملائی اور ویلور اضلاع کے تھے۔

سرخ صندل ایک معدوم ہوتی ہوئی صندل کی قسم ہے۔اسے صندل کی لکڑی بھی کہا جاتا ہے اور بیرونی ممالک خاص طور پر چین اور جاپان میں اس کی بہت زیادہ طلب ہے۔ اس کی بھاری قیمت ملتی ہے۔ یہ عام طور پر سیشاچلم کے پہاڑی سلسلہ میں اگائی جاتی ہے جو پورے کڑپہ، چتور، کرنول (رائلسیما کا علاقہ) اور آندھراپردیش کے علاقہ ضلع نیلور کے کچھ حصوں میں اگائی جاتی ہے۔ پولیس نے کہا کہ مختلف چوکیوں پر خاطیوں کو گرفتار کرنے کیلئے جو مفرور اسمگلرس ہیں، ایک فضائی سروے بھی جنگلاتی علاقہ میں کیا جارہا ہے۔ سرخ صندل کے اسمگلرس محکمہ جنگلات کے ارکان عملہ اور پولیس ملازمین پر ماضی میں بھی حملے کرچکے ہیں۔ دو محکمہ جنگلات کے عہدیدار کو سرخ صندل کے کاٹنے والوں نے سیشاچلم جنگلاتی علاقہ میں ڈسمبر 2013ء میں سنگسار کردیا تھا۔ سرخ صندل کے اسمگلرس دو مقامات پر ہلاک ہوگئے۔ ٹاسک فورس کے ارکان عملہ اور ان اسمگلرس کے درمیان جو سرخ صندل کی لکڑی لے جارہے تھے،

فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا۔ پولیس اور محکمہ جنگلات کے ارکان عملہ پر زنجیروں اور آتشی اسلحہ سے حملہ کیا گیا تھا۔ ان پر سنگباری بھی کی گئی تھی۔ ایڈیشنل ڈی جی پی (لا اینڈ آرڈر) آر پی ٹھاکر نے کہا کہ پولیس ملازمین پر حملہ کے بعد ہی جوابی کارروائی کی گئی۔ اسمگلرس کو پہلے پولیس نے چیلنج کیا اور صیانتی عملہ نے ان پر قابو پانے اور لکڑی پر قبضہ کرلینے کی کوشش کی۔ اس کارروائی میں انہوں نے پولیس پر حملہ کردیا۔ گذشتہ سال بھی ایسے ہی واقعات پیش آچکے ہیں جن میں پولیس پر سرخ صندل کے اسمگلرس نے حملہ کیا تھا جن میں محکمہ جنگلات کا عملہ بھی شامل تھا۔ اس نے اس پر جوابی کارروائی کی تھی جس میں چند اسمگلرس ہلاک ہوگئے تھے۔ حکومت آندھراپردیش جون 2013ء میں ایک اسپیشل ٹاسک فورس قائم کرچکی ہے تاکہ سرخ صندل کے اسمگلرس پر قابو پایا جاسکے۔ ایس ٹی ایف پولیس اور محکمہ جنگلات کے عہدیداروں پر مشتمل ہے جو پورے کڑپہ، چتور، نیلور اور کرنول اضلاع میں بڑے پیمانے پر سرخ صندل کے درختوں کو کاٹنے کے انسداد کیلئے دھاوے کرتی رہی ہے۔ اس ٹیم کو سرخ صندل کی اسمگلنگ کڑپہ، چتور اور نیلور کے اضلاع میں اختیارات دیئے گئے ہیں۔ غیرقانونی طور پر سرخ صندل کے درخت کاٹ کے انہیں خطرناک اور گھنے جنگل میں منتقل کردیا جاتا ہے اور وہاں سے بڑے پیمانے پر ان کی اسمگلنگ عمل میں آتی ہے۔