چالاک مسخرہ

کسی ملک میں ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا۔ اس کے دربار میں ایک مسخرہ بھی ہوا کرتا تھا جو بادشاہ سے بہت جلتا تھا۔ وہ بہت بے شرمی سے بادشاہ کے پاس اُٹھتا اور بیٹھتا تھا لیکن موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ کب بادشاہ کو نیچا دکھا سکے۔ بادشاہ کو اس کے لطیفے بھلے لگتے تھے مگر مسخرہ کبھی کبھی بادشاہ سے ٹکر لینے کی کوشش کرتا تھا لیکن بادشاہ اسے مذاق سمجھ کر ٹال دیا کرتا تھا۔ مسخرے نے جب دیکھا کہ بادشاہ اس سے اس قدر خوش ہے تو وہ اپنی اوقات ہی بھول گیا۔ سارے درباری اس سے گھبراتے تھے کیونکہ وہ جب چاہتا بڑے بڑے امیروں اور افسروں کو چٹکی میں اُڑا دیتا۔ اب درباری بھی بادشاہ سے ناراض رہنے لگے تھے کہ اس نے ایک مسخرے کو اتنا سَر پر چڑھا لیا ہے لیکن کسی کی مجال نہیں تھی کہ بادشاہ کے سامنے چوں بھی کرسکے یا اسے ٹیڑھی نظر سے دیکھے۔ مسخرے نے جب یہ دیکھا کہ بڑے بڑے افسر اس سے ڈرتے ہیں تو وہ خوب خوش ہوتا۔ دوسرے کے سامنے خوب اُتراتی کہ دیکھو بادشاہ میرے مقابلے میں تمہیں کچھ نہیں سمجھتا۔

پرانی کہاوت ہے کہ ’’سو دن چور کے اور ایک دن شاہ کا‘‘۔ ایک دن بادشاہ کو مسخرے کی کوئی بات اتنی بُری لگی کہ اس نے حکم دیا کہ مسخرے کی گردن اُڑا دی جائے۔ مسخرے نے بادشاہ کے پیروں پر سَر رکھ کر معافی مانگی مگر بادشاہ نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا۔ امیروں اور وزیروں نے بھی ڈرتے ڈرتے درخواست کی کہ وہ مسخرے کو معاف کردے۔ پتہ نہیں ان کے کہنے کا اثر ہوا یا مسخرے کے رونے پیٹنے کا اثر کہ بادشاہ نے اپنے فیصلہ میں نرمی کرتے ہوئے مسخرے سے کہا ’’جا تجھ کو اتنی اجازت ہے کہ تو خود سوچ لے تو کس طرح مرنا چاہتا ہے‘‘، یہ سن کر مسخرے نے ادب سے سرجھکالیا۔ دوسرے دن مسخرہ دربار میں لایا گیا تاکہ اسے سزا دی جائے۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق اس سے پوچھا گیا کہ وہ کس طرح مرنا چاہتا ہے۔ مسخرے نے کہا ’’میں چاہتا ہوں کہ مجھے بوڑھے کی موت آئے اور میں کسی بیماری یا کمزوری سے مروں‘‘۔ بادشاہ یہ سن کر مسکرایا اور حکم دیا کہ اسے چھوڑ دیا جائے۔ اس طرح چالاک مسخرے نے اپنی جان بچا لی اور آئندہ کیلئے توبہ کرلی کہ وہ کسی کا مذاق نہیں اُڑائے گا۔